Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 72
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا١ۚ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يُهَاجِرُوْا : اور انہوں نے ہجرت نہ کی مَا لَكُمْ : تمہیں نہیں مِّنْ : سے وَّلَايَتِهِمْ : ان کی رفاقت مِّنْ شَيْءٍ : کچھ شے (سروکار) حَتّٰي : یہانتک کہ يُهَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں وَاِنِ : اوراگر اسْتَنْصَرُوْكُمْ : وہ تم سے مدد مانگیں فِي الدِّيْنِ : دین میں فَعَلَيْكُمُ : تو تم پر (لازم ہے) النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر عَلٰي : پر (خلاف) قَوْمٍ : وہ قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : معاہدہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے وہ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہے۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہئے) اور خدا تمہارے (سب) کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ ان الذین امنوسورت کا اختتام موالاۃ کے ذکر ساتھ کیا تاکہ ہر فریق اپنے اس دوست اور ولی کو جان لے جس وہ مدد طلب کرسکتا ہے۔ ہجرت اور جہاد کا لغوی اور اصطلاحی معنی و مفہوم پہلے گزر چکا ہے۔ والذین او واونصروایہ اس پر معطوف ہے۔ اور مراد وہ انصار ہیں جو ان سے پہلے ایمان کے ساتھ اپنے گھروں میں اقامت گزیں تھے اور حضور نبی کریم ﷺ اور مہاجرین ان سے آملے۔ اولئک یہ مبتدا ہونے کے سبب محل رفع میں ہے۔ بعضھم یہ دوسرا مبتدا ہے۔ اولیاء بعض یہ اس کی خبر ہے اور پھر سب مل کر ان کی خبر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اولیاء بعض، فی المیراث (یعنی وہ میراث میں ایک دو سے کے ولی ہیں) پس وہ ہجرت کے سبب ایک دوسرے کے وارث بنتے رہے۔ اور وہ آدمی جو ایمان تو لایا لیکن اس نے ہجرت نہ کی تو وہ ان کا وارث نہ بن سکتا جس نے ہجرت کی، پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول وا اولوا الارحام، الآیہ کے ساتھ اس منسوخ کردیا۔ اسے ابو دائود نے بیان کیا ہے۔ اور میراث مومنین میں سے ذوی الارحام کے لیے ہوگی۔ اور وہ دین رکھنے باہم کسی شے کے وارث نہیں ہوسکتے۔ پھر حضور علیہ الصلٰوۃ السلام کا یہ ارشاد سامنے آیا :” فرائضّ (حصص) کو ان کے ساتھ ملحق کردو “ (1) اس کا یہ بیان پہلے آیۃ المواریث میں گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان نسخ نہیں ہے، بلکہ اس کا معنی ہے وہ نصرت اور مدد کرنے میں ایک دوسرے کے دوست ہے جیسا کہ سورة النساء میں گزر چکا ہے۔ والذین امنو یہ مبتد اور خبر ہے۔ مالکم من ولا یتھم من شیء یحییٰ بن وثاب، اعمس اور حمزہ ن واو کے کسرہ کے ساتھ من ولا یتھم پڑھا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ بھی ایک لغت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ولیت اشی (میں شے کا والی بنا) سے ماخوذ ہے۔ کہا جاتا ہے : ولی بین الولایۃ جس کی دوستی واضح ہو وہ ولی کہلاتا ہے اور وال بین الولایۃ (اور جس کی امارت بین ہو وہ والی کہلاتا ہے) اس مقام پر فتحہ یعنی ولایۃ زیادہ واضح اور احسن ہے، کیونکہ یہ نصرت اور نسب کے معنی میں ہے۔ اور کبھی ولایۃ اور ولایۃ دونوں کا اطلاق امارت پر کیا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : وان استنصروکم فی الدین مراد یہ ہے کہ وہ مومنین جنہوں نے ہجرت نہیں کی اگر وہ تمہیں وار الحرب سے اپنے بچائو اور حفاظت کے لیے افرادی یا مالی امداد کے لیے پکاریں تو تم ان کی امداد کرو اور یہ تم پر فرض ہے پس تم انہیں ذلیل اور رسوا نہ کرو، مگر یہ کہ اگر وہ تم سے ایسی کا فرقوم کے خلاف مدد طلب کریں جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو چکاہو تو پھر ان کے خلاف تم مدد نہ کرو اور اپنا عہد نہ توڑو یہاں تک کہ اس کی مدت مکمل ہوجائے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : مگر یہ کہ وہ انتہائی کمزور اور ضعیف ہو تو پھر ان کے ساتھی اور موالات قائم رہے گی اور ان کی مدد و نصرت واجب ہوگی، یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی ایک چھپکنے والی آنکھ باقی رہیگی یہاں تک وہ انہیں بچانے کے لئے ضرور نکلے گی، اگر ہماری تعداد اسے برداشت کرسکتی ہو یا پھر انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے ہم اپنے سارے مال خرچ کردیں گے یہاں تک کہ کسی کے پاس ایک درہم بھی باقی نہ رہے۔ اسی طرح امام مالک (رح) اور جمیع علماء نے کہا ہے : لیکن انا للہ وانا الیہ رجعون اس پر جس نے مخلوق کے لیے اپنے بھائیوں کو دشمن کی قید میں چھوڑے رکھنے کو حلال قرار دیا ہے اس کے باوجود کے ان کے قبضہ میں اموال کے خزانے بھی ہوں اور وافر احوال وقدرت، تعداد اور قوت و طاقت بھی میسر ہو۔ زجاج نے کہا ہے : اغراء کی بنا پر فعلیکم النصر کے ساتھ پڑھنا بھی جائز ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : والذین کفر وابعضھم اولیاء بعض اللہ تعالیٰ نے کفار اور مومنین کے درمیان موالات کو ختم کردیا ہے۔ اور مومنین کو آپس میں ایک دوسرے کا دوست اور کفار کو آپس میں ایک دوسرے کا حمایتی قرار دیا ہے، وہ اپنے دین کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور اپنے اعقاد کے مطابق باہم معاملات کرتے ہیں۔ ہمارے علماء نے ایسی کافرہ عورت کے بارے میں کہا ہے جس کا بھائی مسلمان ہو وہ اس کی شادی نہیں کرسکتا، کیونکہ ان دونوں کے درمیان ولایت موجود نہیں، اور اس عورت کی مثل دین رکھنے والا اس کی شادی کرسکتا ہے۔ بس جس طرح مسلمان عورت کی شادی مسلمان ہی کرسکتا ہے، اسی طرح کافرہ کی شادی بھی وہ کافر ہی کرسکتا ہے جو اس کا قریبی ہو یا اس کا بشپ ہو، اگرچہ وہ کسی مسلمان سے ہو، مگر یہ کو وہ عورت آ زاد ہو، پس اگر اس کا عقد غیر آزاد پر کیا گیا تو وہ فسخ کردیا جائے گا اگر وہ کسی مسلمان کا ہو اور نصرانی سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔ اور اصبع نے کہا ہے : وہ عقد فسخ نہیں کیا جائے گا، (کیونکہ) مسلمان کا عقد تو اولیٰ اور افضل ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ قولہ تعالیٰ : الا تفعلوہ اس میں ضمیر موارثت اور اس کے التزام کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس کا معنی یہ ہے : اگر تم انہیں چھوڑ دو وہ ایک دوسرے کے وارث بنیں گے جیسے وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے رہے۔ یہ ابن زید نہ کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ یہ ضمیر تناصر (ایک دوسرے کی مدد کرنا) موازرۃ (اظہار ہمدرردی اور غم خواری کرنا) معاونۃ اور اتصال الایدی (ہاتھ ملانا) کیطرف لوٹ رہی ہے۔ ابن جریج وغیرہ نے کہا ہے : یہ اگر نہ کیا گیا تو قریب ہے اس فتنہ واقع ہوجائے اور یہ پہلے سے زیادہ موکد ہے۔ ترمذی نے عبداللہ بن مسلم بن ہرمز سے انہوں نے عبید کے دو بیٹوں محمد اور سعد سے اور انہوں نے ابو حاتم مزنی سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جب تمہارے پاس وہ آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو تم اس کا نکاح کردو اگر تم اس پر عمل نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا “۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اکرچہ کفو اور مال کے اعتبار سے کچھ کمی بھی ہو ؟ تو آپ نے فرمایا : اذاجاء کم من ترضون دینہ وخلقہ فا نکحوہ (1) آپ نے یہ تین بار فرمایا : ترمذی نے کہا : یہ حدیث غریب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ضمیر اس عہد میثثاق کی جانب لوٹ رہی ہے جسے یہ ارشاد متضمن ہے : الا علی قوم بینکم و بینھم میثاق اور یہ اگر نہ کیا جائے تو یہ بذات خود ایک فتنہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ دین کے بارے میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور یہی دوسرے قول کا معنی ہے۔ ابن اسحاق نے کہا : اللہ تعالیٰ نے مہاجرین وا نصار کو دین میں اپنے ولایت کا اہل قراد دیا ہے ان کے سوا کسی کو نہیں۔ اور کافروں کا ایک دوسرے کا حمایتی قراد دیا ہے۔ پھر فرمایا ہے : الا تفعلوہ اور وہ یہ ہے کہ مومن کافر کا ولی ہے نہ کہ مومنین کا۔ تکن فتنۃ یعنی جنگ کا مسقت آپڑے گی اور وہ جو اس کے ساتھ جاری ہوتی ہے مثلاً حملے، جلادوطنی اور قید وغیر ہ۔ اور فساد کبیر سے مراد شرک کا ظاہر ہونا ہے۔ کسائی نے کہا ہے : قول باری تعالیٰ تکن فتنۃ میں نصب بھی جائز ہے اور معنی یہ ہوگا تکن معلتکم فتنۃ و فساد کبیرا (تمہارا ایسا کرنا فتنہ و فساد کا باعث بن جائے گا) حقا یہ مصدر ہے، یعنی انہوں نے ہجرت اور نصرف کے ساتھ اپنے ایمان کو پختہ اور ثابت کردیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی اس بشارت کے ساتھ تصدیق کردی ہے کہ فرمایا : مغفرۃ ورزق کریم یعنی ان کے لیے جنت میں بہت بڑا ثواب ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ قولہ تعالیٰ : والذین امنوا من بعد و ھا جروا مراد وہ لوگ ہیں جو حڈیبیہ اور بیعت رضوان کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی۔ اور وہ یہ کہ اس کے بعد ہجرت پہلی ہجرت سے رتبہ میں کم تھی۔ اور دوسری ہجرت وہ ہے جس میں صلح واقع ہوئی اور دو سال تک جنگ نے اپنے ہتھیار ڈالے رکھے پھر مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے ارشاد فرمایا : ” فتح کے بعد کوئی ہجرت نہیں “۔ تو یہ واضح ہوگیا کہ جو اس کے بعد ایمان لایا اور ہجرت کی تو وہ ان کے ساتھ مل جائے گا۔ اور منکم کا معنی ہے نصرت و مولات میں تمہاری مثل ہیں۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ قولہ تعالیٰ : واولوا لارحام یہ مبتدا ہے۔ اولو کی واحد ذو ہے اور الرحم مونث ہے اس کی جمع ارحام ہے۔ اور یہاں اس سے مراد عصبات ہیں نہ کہ وہ جو رحم سے پیدا ہوا ہو۔ اور وہ جو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ رحم سے مراد عصبات ہیں وہ عربوں کا یہ قول ہے : وصلتک رحم (عصبہ نے تجھے ملادیا، جوڑ دیا) وہ اس سے ماں کی قرابت مراد نہیں لیتے۔ قتیلہ بنت حارث جو کہ نضر بن حارث کی بہن ہے نے کہا، اسی طرح ابن ہشام نے کہا ہے : سہیلی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے : صحیح یہ ہے کہ وہ نضر کی بیٹی ہے اس کی بہن نہیں، ” کتاب الدلائل “ میں اسی طرح ہے۔ وہ اپنے باپ کا مرثیہ کہتی ہے جس وقت حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے بند کرکے وادی صفراء میں قتل کیا : یا راکباء ان الاثیل مظنۃ من صبح خامۃ وانت موفق اے سوار ! مقام اثیل کے متعلق مجھے پانچویں روز کی صبح سے بد گمانی ہے اور تو بڑے ٹھیک وقت پر آیا ہے (جب تیری ضرورت تھی) ابلغ بھا میتا بان تحیۃ ما ان تزال بھا لمنجا ئب تخفق وہاں کی ایک میت کو پیغام پہنچا دینا کہ اسے سلام ہو جب تک شریف اونٹنیاں وہاں تیزی سے آتی جاتی رہیں منیء او عبرۃ مسفو حۃ جادت برا کفھا و اخری تخنق میری طرف سے تیرے لیے وہ بہائے گئے آنسو ہیں جو اپنے محل سے کثرت سے بہے ہیں اور رونے میں پھندا لگائے ہوئے ہیں۔ ھل یسمعنی النضر ان نادیتہ ام کیف یسمع میف لا ینطق اگر میں پکاروں تو کیا نضر میری پکار سنے گا یا وہ مردہ کیسے سن سکتا ہے جو بو نہیں سکتا۔ ء امحمد یا خیر ضنء کریمۃ قومھا والفحل فحل معرق اے محمد ﷺ اے اپنی قوم کی شریف عورت کی بہترین اولاد ! اور شریف تو وہی ہوتا ہے جو نسلاً شریف ہو۔ ما کان ضرک لو منت وربما من الفتی وھو امغیظ المحنق اگر آپ احسان کرے (اور اسے چھوڑ دیتے) تو آپ کا کیا نقصان ہوتا اور ایسا کم ہوا ہے کہ نوجوان ایسی حالت میں احسان کرے جب کہ وہ غصے سے بھرا کینی ور ہو۔ لو کنت قابل فدیۃ لفدیتہ یا عز ما یفدی بہ ما ینفق اگر آپ فدیہ قبول کرلیتے تو میں اس کا فدیہ اس معزز (اور قیمتی) شے کے ساتھ ادا کرتی جس کے ساتھ فدیہ دیا جاسکتا ہے اور جو خرچ ہو سکتی ہے۔ فا لنضر اقرب من اسرت قرابۃ واحقھم ان کان عتق یتعق کیونکہ نضر ان تمام لوگوں میں زیادہ قریبی رشتہ دار ہے جن کو آپ نے اسیر کیا اور ان سب سے زیادہ اس بات کا حوق دار ہے کہ اگر آزادی ممکن ہو تو آزاد کردیا جائے۔ ظلت سیرف بنیء ابیہ تنوشہ للہ ارحام ھناک تشقق اس کے بھائیوں کی تلواریں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتی رہیں۔ ہائے خدایا وہاں قرابتوں کے ٹکرے ٹکرے ہوتے رہے۔ صبرا یقاد الی المنیۃ متعبا رسف المقید ھناک تشقق اسے موت کی جانب اس حالت میں کھینچا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پائون بندھے ہوئے ہیں، تھکا ماندہ ہے، بیڑیوں میں بمشکل پائوں اٹھار ہا ہے اور زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ سلف اور ان کے بعد آنے والوں نے ذوی الارحام کو وارث بنانے میں اختلاف کیا ہے۔ اور ذوی الارحام وہ ہیں جن کے لیے کتاب اللہ میں کوئی حصہ مقرر نہیں۔ اور میت کے رشتہ دار تو ہیں لیکن عصبہ نہیں ہیں، جیسے بیٹیوں کی اولاد، بہنوں کی اولاد، بھائی کی بیٹیاں، پھوپھی کی بیٹیاں، اور خالہ اور چچا جو باپ کی طرف سے بھائی ہو، نانا، نانی اور جو ان کے قریبی ہیں۔ پس ایک قوم نے کہا : ڈوی الارحام میں جس کا کوئی حصہ نہیں وہ وارث نہیں بن سکتا۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت زید بن ثابت، حضرت مکحول اور امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہا سے مروی ہے اسی طرح حضرت امام شافعی (رح) نے بھی کہا ہے۔ اور جنہوں نے انہیں وارث بنانے کا قول کیا ہے وہ حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابن مسعود، حضرت معاذ، حضرت ابو وداء اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں اور ایک روایت میں حضرت علی ؓ سے بھی مروی ہے اور اور یہی اہل کوفہ، امام احمد، اسحاق کا قول ہے۔ اور انہوں نے استدلال کیا ہے اور کہا ہے : ذوی الارحام میں دو سبب جمع ہیں ایک قرابت اور دوسرا سلام۔ پس وہ وراثت کا اس سے زیادہ حق دار ہے جس میں صرف ایک سبب پایا جاتا ہے اور وہ سبب اسلام ہے۔ پہلے فریق نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے : یہ آیت مجمل اور جامع ہے۔ اور ظاہر اً یہ ہر رشتہ دار کو شامل ہے چاہے وہ قریبی ہو یا بعیدی اور آیات مواریث مفسر ہیں اور مفسر مجمل پر راجح ہوتا ہے اور اس کی وضاحت اور بیان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا : تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے ولاء کو سبب ثابت قرار دیا ہے اور اس میں مولی کو قائم مقام عصبہ کے رکھا ہے اور ارشاد فرمایا : الولاء لمن اٗعتق (1) (ولاء اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا) اور ولاء کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور دوسروں نے اس سے استدلال کیا ہے جیسے ابو دائود اور قطنی نے حضرت مقدام ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کو بوجھ (یعنی قرض وغیرہ) چھوڑا تو وہ میرے سپرد ہے “۔ اور بسا اوقات یو فرمایا ” پس وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے حوالے ہیں۔ اور جس نے مال چھوڑا وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے پس میں اس کا وارث ہو جس کا کوئی وارث نہیں میں ان کی طرف سے دیف اور تاوان ادا کروں گا اور میں ہی اس کا وارث ہوں گا اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا اور کوئی وارث نہ ہوا اور اس کی طرف سے تاوان اور دیت ادا کرے گا اور اس کا وارث بنے گا “ (1) ۔ اور دار زقطنی نے حضرت طائوس (رح) سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا :” اللہ تعالیٰ اس کا مولی ہے جس کا کوئی مولیٰ نہیں اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں “۔ یہ روایت موقوف ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ــ” ماموں وارث ہے “۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے پھوپھی اور خالہ کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں نہیں جانتا یہاں تک کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) میرے پاس آئیں “۔ پھر فرمایا :” پھوپھی اور خالہ کی میراث کے بارے میں پوچھنے والا سائل کہاں ہے “ ؟ راوی کا بیان ہے : پس وہ آدمی حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جبریل امین نے مجھے ابی پیغام پہنچایا ہے کہ ان دونوں کے لیے کو شے نہیں “۔ دار قطنی نے کہا ہے : اسے مسعدہ کے بغیر محمد بن عمرو سے کسی نے مسند ذکر نہیں کیا اور یہ ضعیف ہے۔ اور درست یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے۔ اور حضرت شعبی (رح) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ زیاد بن ابی سفیان نے اپنے ہمنشین کو کہا : تو جانتا ہے کہ حضرف عمر ؓ نے پھوپھی اور خالہ کے بارے میں کیسے فیصلہ کیا ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا : بیشک میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے زیادہ جانتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ نے ان دونوں کیسے فیصلہ کیا ؟ آپ نے خالہ کو قائم مقام ماں کے اور پھوپھی کو قائم مقام باپ رکھا ہے۔
Top