Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 72
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا١ۚ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يُهَاجِرُوْا : اور انہوں نے ہجرت نہ کی مَا لَكُمْ : تمہیں نہیں مِّنْ : سے وَّلَايَتِهِمْ : ان کی رفاقت مِّنْ شَيْءٍ : کچھ شے (سروکار) حَتّٰي : یہانتک کہ يُهَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں وَاِنِ : اوراگر اسْتَنْصَرُوْكُمْ : وہ تم سے مدد مانگیں فِي الدِّيْنِ : دین میں فَعَلَيْكُمُ : تو تم پر (لازم ہے) النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر عَلٰي : پر (خلاف) قَوْمٍ : وہ قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : معاہدہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
جو لوگ ایمان لائے اور گھر چھوڑا اور لڑے اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور جو ایمان لائے اور گھر نہیں چھوڑا تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں جب تک وہ گھر نہ چھوڑ آئیں، اور اگر وہ تم سے مدد چاہیں دین میں تو تم کو لازم ہے ان کی مدد کرنی مگر مقابلہ میں ان لوگوں کے کہ ان میں اور تم میں عہد ہو، اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو دیکھتا ہے۔
خلاصہ تفسیر
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت بھی کی اور اپنے مال اور جان سے اللہ کے راستہ میں جہاد بھی کیا (جس کا وقوع لوازم عادیہ ہجرت سے تھا گو مدار حکم توارث نہیں اور یہ جماعت مہاجرین سے ملقب ہے) اور جن لوگوں نے (ان مہاجرین کو) رہنے کو جگہ دی اور (ان کی) مدد کی (اور یہ جماعت انصار سے ملقب ہے) یہ (دونوں قسم کے) لوگ باہم ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور جو لوگ ایمان تو لائے اور ہجرت نہیں کی تمہارا (یعنی مہاجرین کا) ان سے میراث کا کوئی تعلق نہیں (نہ یہ ان کے وارث نہ وہ ان کے) جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں (اور جب ہجرت کرلیں پھر وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوجائیں گے) اور (گو ان سے تمہارا توارث نہ ہو لیکن) اگر وہ تم سے دین کے کام (یعنی قتال مع الکفار) میں مدد چاہیں تو تمہارے ذمے (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں نہیں کہ تم میں اور ان میں باہم عہد (صلح کا) ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو دیکھتے ہیں (پس ان کے مقررہ احکام میں خلل ڈال کر مستحق ناخوشی نہ ہونا) اور (جس طرح باہم تم میں علاقہ توارث کا ہے اسی طرح) جو لوگ کافر ہیں وہ باہم ایک دوسرے کے وارث ہیں (نہ تم ان کے وارث نہ وہ تمہارے وارث) اگر اس (حکم مذکور) پر عمل نہ کرو گے (بلکہ باوجود تخالف دین محض قرابت کی بناء پر مومن و کافر میں علاقہ توارث قائم رکھو گے) تو دنیا میں بڑا فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا۔ (کیونکہ توارث سے سب ایک جماعت سمجھی جائے گی اور بدون جدا جماعت ہوئے اسلام کو قوت و شوکت حاصل نہیں ہوسکتی اور ضعف اسلام سرمایہ تمام تر فتنہ و فساد عالم کا ہے جیسا کہ ظاہر ہے) اور (اس حکم توارث بین المہاجرین والانصار میں ہرچند کہ سب مہاجرین برابر ہیں خواہ زمانہ ہجرت نبویہ میں انہوں نے ہجرت کی ہو یا بعد میں لیکن فضیلت و مرتبہ میں باہم متفاوت ہیں چنانچہ) جو لوگ (اول) مسلمان ہوئے اور انہوں نے (ہجرت نبویہ کے زمانہ میں) ہجرت کی اور (اول ہی سے) اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے اور جن لوگوں نے (ان مہاجرین کو) اپنے یہاں ٹھہرایا اور ان کی مدد کی یہ لوگ (تو) ایمان کا پورا حق ادا کرنے والے ہیں (کیونکہ اس کا حق یہی ہے کہ اس کے قبول کرنے میں سبقت کرے) ان کے لئے (آخرت میں) بڑی مغفرت اور (جنت میں) بڑی معزز روزی (مقرر) ہے اور جو لوگ (ہجرت نبویہ کے) بعد کے زمانہ میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا (یعنی کام تو سب کئے مگر بعد میں) سو یہ لوگ (گو فضیلت میں تمہارے برابر نہیں لیکن تاہم) تمہارے ہی شمار میں ہیں (فضیلت میں تو من وجہ کیونکہ اعمال کے تفاضل سے احکام شرعیہ میں تفاوت نہیں ہوتا) اور (ان بعد والے مہاجرین میں) جو لوگ (باہم یا مہاجرین سابقین کے) رشتہ دار ہیں (گو فضل و رتبہ میں کم ہوں لیکن میراث کے اعتبار سے) کتاب اللہ (یعنی حکم شرعی یا آیت میراث) میں ایک دوسرے (کی میراث) کے (بہ نسبت غیر رشتہ داروں کے) زیادہ حقدار ہیں (گو غیر رشتہ دار فضل و رتبہ میں زیادہ ہوں) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں (اس لئے ہر وقت کی مصلحت کے مناسب حکم مقرر فرماتے ہیں)۔

معارف و مسائل
یہ سورة انفال کی آخری چار آیتیں ہیں۔ ان میں اصل ہجرت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق مہاجر مسلمانوں کی وراثت سے ہے، اس کے بالمقابل غیر مہاجر مسلمان اور غیر مسلموں کی وراثت کا بھی ذکر آیا ہے۔
خلاصہ ان احکام کا یہ ہے کہ جن لوگوں پر شرعی احکام عائد ہوتے ہیں وہ اولا دو قسم پر ہیں۔ مسلم، کافر۔ پھر مسلم اس وقت کے لحاظ سے دو قسم کے تھے ایک مہاجر جو مکہ سے ہجرت فرض ہونے پر مدینہ طیبہ میں آکر مقیم ہوگئے تھے۔ دوسرے غیر مہاجر جو کسی جائز عذر سے یا کسی دوسری وجہ سے مکہ ہی میں رہ گئے تھے۔
باہمی رشتہ داری اور قرابت ان سب قسم کے افراد میں دائر تھی کیونکہ اوائل اسلام میں بکثرت ایسا تھا کہ بیٹا مسلمان ہے باپ کافر یا باپ مسلمان ہے بیٹا کافر۔ اسی طرح بھائی بھتیجوں اور نانے ماموں وغیرہ کا حال۔ اور مسلمان مہاجر اور غیر مہاجر میں رشتہ داریاں ہونا تو ظاہر ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وجہ سے مرنے والے انسان کے چھوڑے ہوئے مال کا مستحق اسی کے قریبی عزیزوں، رشتہ داروں کو قرار دیا ہے حالانکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ جس کو جو کچھ دنیا میں ملا وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کی ملک حقیقی تھا، اسی کی طرف سے زندگی بھر استعمال کرنے، نفع اٹھانے کے لئے انسان کو دے کر عارضی مالک بنادیا گیا تھا اس لئے تقاضائے عقل و انصاف تو یہ تھا کہ ہر مرنے والے کا ترکہ اللہ تعالیٰ کی ملک کی طرف لوٹ جاتا جس کی عملی صورت اسلامی بیت المال میں داخل کرنا تھا جس کے ذریعہ ساری خلق اللہ تعالیٰ کی پرورش اور تربیت ہوتی ہے۔ مگر ایسا کرنے میں ایک تو ہر انسان کے طبعی جذبات کو ٹھیس لگتی جب کہ وہ جانتا کہ میرا مال میرے بعد نہ میری اولاد کو ملے گا نہ ماں باپ اور بیوی کو۔ اور پھر اس کا یہ نتیجہ بھی طبعی طور پر لازمی سا تھا کہ کوئی شخص اپنا مال بڑھانے اور اس کو محفوظ رکھنے کی فکر نہ کرتا صرف اپنی زندگی کی حد تک ضروریات جمع رکھنے سے زائد کوئی شخص محنت و جانفشانی نہ کرتا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ پورے انسانوں اور شہروں کے لئے تباہی و بربادی کی صورت اختیار کرتا۔
اس لئے حق تعالیٰ جل شانہ نے میراث کو انسان کے رشتہ داروں کا حق قرار دے دیا بالخصوص ایسے رشتہ داروں کا جن کے فائدہ ہی کے لئے وہ اپنی زندگی میں مال جمع کرتا اور طرح طرح کی محنت مشقت اٹھاتا تھا۔
اس کے ساتھ اسلام نے اس اہم مقصد کو بھی وراثت کی تقسیم میں سامنے رکھا جس کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت۔ اور اس کے لحاظ سے پورے عالم انسان کو دو الگ الگ قومیں قرار دے دیا۔ مومن اور کافر۔ آیت قرآن (آیت) خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ کا یہی مطلب ہے۔
اسی دو قومی نظریہ نے نسبی اور خاندانی رشتوں کو میراث کی حد تک قطع کردیا کہ نہ کسی مسلمان کو کسی رشتہ دار کافر کی میراث سے کوئی حصہ ملے گا اور نہ کسی کافر کسی مسلمان رشتہ دار کی وراثت میں کوئی حق ہوگا۔ پہلی دو آیتوں میں یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ اور یہ حکم دائمی اور غیر منسوخ حکم ہے کہ اول اسلام سے لے کر قیامت تک یہی اسلام کا اصول وراثت ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا حکم مسلمان مہاجر اور غیر مہاجر دونوں کے آپس میں وراثت کا ہے۔ جس کے متعلق پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمان جب تک مکہ سے ہجرت نہ کرے اس وقت تک اس کا تعلق بھی ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے وراثت کے بارے میں منقطع ہے۔ نہ مہاجر مسلمان اپنے غیر مہاجر مسلمان رشتہ دار کا وارث ہوگا اور نہ غیر مہاجر کسی غیر مہاجر مسلمان کی وراثت سے کوئی حصہ پائے گا یہ حکم ظاہر ہے کہ اس وقت تک تھا جب تک کہ مکہ مکرمہ فتح نہیں ہوا تھا فتح مکہ کے بعد تو خود رسول کریم ﷺ نے اعلان فرما دیا تھا لا ھجرة بعد الفتح۔ یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم ختم ہوگیا اور جب ہجرت کا حکم ہی ختم ہوگیا تو ترک ہجرت کرنے والوں سے بےتعلقی کا سوال ختم ہوگیا۔
اسی لئے اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حکم فتح مکہ سے منسوخ ہوچکا ہے اور اہل تحقیق کے نزدیک یہ حکم بھی دائمی غیر منسوخ ہے مگر حالات کے تابع بدلا ہے، جن حالات میں نزول قرآن کے وقت یہ حکم آیا تھا اگر کسی زمانہ میں یا کسی ملک میں پھر ویسے ہی حالات پیدا ہوجائیں تو پھر یہی حکم جاری ہوجائے گا۔
توضیح اس کی یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے ہر مسلمان مرد و عورت پر مکہ سے ہجرت کو فرض عین قرار دیا گیا تھا۔ اس حکم کی تعمیل میں بجز معدودے چند مسلمانوں کے سبھی مسلمان ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آگئے تھے اور اس وقت مکہ سے ہجرت نہ کرنا اس کی علامت بن گیا تھا کہ وہ مسلمان نہیں اس لئے اس وقت غیر مہاجر کا اسلام بھی مشتبہ اور مشکوک تھا اس لئے مہاجر اور غیر مہاجر کی باہمی وراثت کو قطع کردیا گیا تھا۔
اب اگر کسی ملک میں پھر بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوجائیں کہ وہاں رہ کر اسلامی فرائض کی ادائیگی بالکل نہ ہوسکے تو اس ملک سے ہجرت کرنا پھر فرض ہوجائے گا اور ایسے حالات میں بلا عذر قوی ہجرت نہ کرنا اگر یقینی طور پر علامت کفر کی ہوجائے تو پھر بھی یہی حکم عائد ہوگا کہ مہاجر اور غیر مہاجر میں باہمی وراثت جاری نہ رہے گی۔ اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ مہاجر اور غیر مہاجر میں قطع وراثت کو بیان کرتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس علامت کفر کی وجہ سے وراثت سے تو محروم کردیا گیا مگر محض اتنی علامت کی وجہ سے اس کو کافر نہیں قرار دیا جب تک اس سے صریح اور واضح طور پر کفر کا ثبوت نہ ہوجائے۔
اور غالبا اسی مصلحت سے اس جگہ ایک اور حکم غیر مہاجر مسلمانوں کا ذکر کردیا گیا ہے کہ اگر وہ مہاجر مسلمانوں سے امداد و نصرت کے طالب ہوں تو مہاجر مسلمانوں کو ان کی امداد کرنا ضروری ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ غیر مہاجر مسلمانوں کو بالکل کافروں کی صف میں نہیں رکھا بلکہ ان کا یہ اسلامی حق باقی رکھا گیا کہ ضرورت کے وقت ان کی امداد کی جائے۔
اور چونکہ اس آیت کا شان نزول ایک خاص ہجرت ہے مکہ سے مدینہ کی طرف اور غیر مہاجر مسلمان وہی تھے جو مکہ میں رہ گئے تھے اور کفار مکہ کے نرغہ میں تھے تو یہ ظاہر ہے کہ ان کا امداد طلب کرنا انھیں کفار مکہ کے مقابلہ میں ہوسکتا تھا۔ اور جب قرآن کریم نے مہاجر مسلمانوں کو ان کی امداد کا حکم دے دیا تو بظاہر اس سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ ہر حال میں اور ہر قوم کے مقابلہ میں ان کی امداد کرنا مسلمانوں پر لازم کردیا گیا ہے اگرچہ وہ قوم جس کے مقابلہ پر ان کو امداد مطلوب ہے اس سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ التواء جنگ کا بھی ہوچکا ہو۔ حالانکہ اصول اسلام میں عدل و انصاف اور معاہدہ کی پابندی ایک اہم فریضہ ہے۔ اس لئے اسی آیت میں ایک استثنائی حکم یہ بھی ذکر فرما دیا گیا کہ اگر غیر مہاجر مسلمان مہاجر مسلمانوں سے کسی ایسی قوم کے مقابلہ پر مدد طلب کریں جس سے مسلمانوں نے ترک جنگ کا معاہدہ کر رکھا ہے تو پھر اپنے بھائی مسلمانوں کی امداد بھی معاہد کفار کے مقابلہ میں جائز نہیں۔
یہ خلاصہ مضمون ہے پہلی دو آیتوں کا۔ اب الفاظ سے اس کو ملا کر دیکھئے، ارشاد ہوتا ہے (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُهَاجِرُوْا۔
یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے وطن اور اعزاء و اقرباء کو چھوڑا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا۔ مال خرچ کرکے ہتھیار اور سامان جنگ خریدا اور میدان جنگ کے لئے اپنی جانوں کو پیش کردیا۔ اس سے مراد مہاجرین اولین ہیں۔ اور وہ لوگ جنہوں نے رہنے کو جگہ دی اور مدد کی۔ اس سے مراد انصار مدینہ ہیں۔ ان دونوں فریق کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت نہیں کی تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں جب تک وہ ہجرت نہ کریں۔
اس جگہ قرآن کریم نے لفظ ولی اور ولایت استعمال فرمایا ہے جس کے اصلی معنی دوستی اور گہرے تعلق کے ہیں۔ حضرت ابن عباس، حسن قتادہ مجاہد وغیرہ ؓ اجمعین ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس جگہ ولایت سے مراد وراثت اور ولی سے مراد وارث ہے اور بعض حضرات نے ولایت کے لغوی معنی یعنی دوستی اور امداد و اعانت ہی مراد لئے۔
پہلی تفسیر کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان مہاجر و انصار آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ان کو تعلق وراثت نہ غیر مسلم کے ساتھ قائم رہے گا نہ ان مسلمانوں کے ساتھ جنہوں نے ہجرت نہیں کی۔ پہلا حکم یعنی اختلاف دین کی بنا پر قطع وراثت تو دائمی اور باقی رہا مگر دوسرا حکم فتح مکہ کے بعد جب کہ ہجرت ہی کی ضرورت نہ رہی تو مہاجر اور غیر مہاجر میں قطع وراثت کا حکم بھی باقی نہ رہا۔ اس سے بعض فقہاء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ جس طرح اختلاف دین قطع وراثت کا سبب ہے اس طرح ختلاف دارین بھی قطع وراثت کا سبب ہے جس کی تفصیلی بحث کتب فقہ میں مذکور ہے۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۔ یعنی یہ لوگ جنہوں نے ہجرت نہیں کی اگرچہ ان سے تعلق وراثت منقطع کردیا گیا ہے مگر وہ بہرحال مسلمان ہیں اگر وہ اپنے دین کی حفاظت کے لئے مہاجر مسلمانوں سے مدد طلب کریں تو ان کے ذمہ ان کی امداد کرنا واجب ہے۔ مگر اس کے ساتھ اصول عدل و انصاف اور پابندی معاہدہ کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے اگر وہ کسی ایسی قوم کے مقابلہ پر تم سے سے امداد طلب کریں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ترک جنگ کا ہوچکا ہے تو ان کے مقابلہ میں ان مسلمانوں کی امداد بھی جائز نہیں۔
صلح حدیبیہ کے وقت ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس وقت رسول اللہ ﷺ نے کفار مکہ سے صلح کرلی اور شرائط صلح میں یہ بھی داخل تھا کہ مکہ سے جو شخص اب مدینہ جائے اس کو رسول اللہ ﷺ واپس کردیں۔ عین اسی معاملہ صلح کے وقت ابو جندل جن کو کفار مکہ نے قید کرکے طرح طرح کی تکلیفوں میں ڈالا ہوا تھا کسی طرح حاضر خدمت ہوگئے اور اپنی مظلومیت کا اظہار کرکے رسول اللہ ﷺ سے مدد کے طالب ہوئے۔ آنحضرت ﷺ جو رحمت عالم بن کر آئے تھے ایک مظلوم مسلمان کی فریاد سے کتنے متاثر ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ کرنا بھی ہر شخص کے لئے آسان نہیں مگر اس تاثر کے باوجود آیت مذکورہ کے حکم کے مطابق ان کی امداد کرنے سے عذر فرما کر واپس کردیا۔ ان کی یہ واپسی سبھی مسلمانوں کے لئے انتہائی دل آزار تھی مگر سرور کائنات ﷺ ارشادات بانی کے ماتحت گویا اس کا مشاہدہ فرما رہے تھے کہ اب ان مظالم کی عمر زیادہ نہیں رہی اور چند روز کے صبر کا ثواب ابو جندل کو اور ملنا ہے اس کے بعد بہت جلد مکہ فتح ہو کر یہ سارے قصے ختم ہونے والے ہیں۔ بہرحال اس وقت ارشاد قرآن کے مطابق آنحضرت ﷺ نے معاہدہ کی پابندی کو ان کی شخصی مصیبت پر ترجیح دی یہی شریعت اسلام کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے ان کو دنیا میں فتح و عزت اور آخرت کی فلاح کا مالک بنایا ہے۔ ورنہ عام طور پر دنیا کی حکومتیں معاہدات کا ایک کھیل کھیلتی ہیں جس کے ذریعہ کمزور کو دبانا اور قوت والے کو فریب دینا مقصد ہوتا ہے جس وقت اپنی ذرا سی مصلحت سامنے ہوتی ہے تو سو طرح کی تاویلیں کرکے معاہدہ کو ختم کر ڈالتے ہیں اور الزام دوسروں کے سر لگانے کی فکر کرتے ہیں۔
Top