Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 19
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا١ۚ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يُهَاجِرُوْا : اور انہوں نے ہجرت نہ کی مَا لَكُمْ : تمہیں نہیں مِّنْ : سے وَّلَايَتِهِمْ : ان کی رفاقت مِّنْ شَيْءٍ : کچھ شے (سروکار) حَتّٰي : یہانتک کہ يُهَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں وَاِنِ : اوراگر اسْتَنْصَرُوْكُمْ : وہ تم سے مدد مانگیں فِي الدِّيْنِ : دین میں فَعَلَيْكُمُ : تو تم پر (لازم ہے) النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر عَلٰي : پر (خلاف) قَوْمٍ : وہ قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : معاہدہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے وہ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہوگی۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہیئے) اور خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے
ان الذین امنوا وھاجروا وجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ والذین او وا ونصروا اولئک بعضھم اولیآء بعضط بیشک جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے (مہاجرین کو) رہنے کو جگہ دی اور (ان کی) مدد کی ‘ یہ لوگ باہم ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ ھاجروا یعنی جنہوں نے اپنی قوم کو اور اپنے گھروں کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں چھوڑا۔ مطلب یہ کہ جنہوں نے مکہ سے ہجرت کی۔ وجاھدوا باموالھم یعنی اسلحہ اور گھوڑوں کے خریدنے اور دوسری دینی ضرورتوں میں مال صرف کیا۔ والَّذِین اٰوَوْا اور جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے مہاجر ساتھیوں کو اپنے گھروں کے اندر مدینہ میں جگہ دی اور ٹھہرایا۔ وَنَصَرُوْا اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف رسول اللہ ﷺ کی مدد کی (اوّل گروہ سے مراد مہاجرین ہیں اور) ان سے مراد انصار ہیں۔ اولٰئک بعضھم اولیاء بعض یہ سب باہم دوست ہیں ‘ کافروں کے دوست نہیں ‘ خواہ وہ ان کے (خاندان اور رشتہ کے اعتبار سے) قرابتدار ہی ہوں۔ لہٰذا مؤمنوں کیلئے کافروں سے (قلبی) دوستی کرنی جائز نہیں ‘ نہ ان کی مدد کرنی جائز ہے ‘ خواہ کفار ان کے باپ دادا ‘ یا بیٹے پوتے ‘ یا چچا ماموں ہوں ‘ یا ان کے کنبہ اور قبیلہ والے ہوں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس آیت کا نزول میراث کے متعلق ہوا۔ مہاجرین آپس میں وارث ہوتے تھے۔ مسلم غیر مہاجر ‘ مسلم مہاجر کا وارث نہیں ہوتا تھا ‘ خواہ وہ اس کا قرابتدار ہی ہوتا۔ گویا باہم توارث کی بنیاد ہجرت تھی (اسلام نہ تھا) لیکن جب مکہ فتح ہوگیا اور ہجرت کا حکم ختم ہوگیا تو پھر مہاجر ‘ غیر مہاجر باہم وارث ہونے لگے اور قرابت ‘ وراثت کی بنیاد قرار پائی اور اس آیت کے حکم کو اللہ نے آیت واولوا الارحام بَعْضُھُمْ اَولٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَاب اللّٰہِ سے منسوخ کردیا۔ میرے نزدیک اگر آیت زیر تفسیر کو میراث کے متعلق ہی قرار دیا جائے تب بھی یہ منسوخ نہیں ہے ‘ ناسخ منسوخ کا حکم تو اس وقت ہوگا جب دونوں آیتوں میں ایسا تضاد ہو جس کو دور کرنا ممکن نہ ہو۔ حضرت ابن عباس نے جو یہ فرمایا کہ مہاجرین و انصار باہم وارث ہوتے تھے ‘ قرابتدار وارث نہیں ہوتے تھے ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرابتدار کافر ‘ مہاجرین کے وارث نہیں ہوتے تھے کیونکہ دونوں میں دینی اختلاف تھا (اور اختلاف دین اب بھی میراث سے مانع ہے) اور مؤمن غیر مہاجر اپنے قرابتدار مؤمن مہاجر کا وارث نہ ہوتا تھا کیونکہ وطنیت اور دار کا اختلاف تھا (ایک دارالحرب کا ‘ دوسرا دارالسلام کا رہنے والا تھا اور اختلاف دار مانع میراث اب بھی ہے) آخر جب مکہ فتح ہوگیا اور دارالسلام بن گیا اور ہجرت کا حکم ختم ہوگیا اور اہل مکہ مسلمان ہوگئے تو (اختلاف دین بھی جاتا رہا اور اختلاف دار بھی لہٰذا) باہم قرابتدار وارث ہونے لگے۔ رہی یہ بات کہ انصاری ‘ مہاجر کا وارث ہوتا تھا تو ایسا ہونا ہی چاہئے تھا کیونکہ دونوں کے درمیان موالات کا معاہدہ تھا اور اب بھی اگر میراث سے کوئی امر مانع نہ ہو اور کوئی نسبی یا سببی وارث نہ ہو تو عقد موالات اب بھی موجب میراث ہے۔ امام اعظم کا یہی مسلک ہے۔ عقد موالات کا موجب ارث ہونا منسوخ نہیں ہوا۔ ایک امر باقی رہتا ہے کہ انصار ‘ مہاجر کا یا مہاجر ‘ انصاری کا ایسی صورت میں وارث ہوتا تھا کہ قرابتدار مؤمن مدینہ میں موجود ہو اور عقد موالات کے تحت انصاری اور مہاجر باہم وارث ہوں ‘ قرابتدار وارث نہ ہوں تو یہ بات روایت سے ثابت نہیں ‘ نہ آیت اس مضمون پر دلالت کر رہی ہے۔ والذین امنوا ولم یھاجروا مالکم من ولا یتھم من شیء حتی یھاجروا وان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر الا علی قوم بینکم وبینھم میثاق وا اللہ بما تعلمون بصیر۔ اور جو لوگ ایمان (تو) لے آئے اور ہجرت نہیں کی ‘ تمہارا ان سے میراث کا کوئی تعلق نہیں تاوقتیکہ وہ ہجرت نہ کریں اور اگر وہ تم سے دین کے کام میں مدد طلب کریں تو تمہارے ذمے ان کی مدد کرنا لازم ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں نہیں کہ جن سے تمہارا معاہدۂ (صلح) ہو۔ اور اللہ بلاشک تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ مالکم من ولایتھم چونکہ فریضۂ ہجرت کو (باوجود قادر ہونے کے) ترک کرنے والا مؤمن فاسق ہے ‘ اسلئے غیر مہاجر مؤمن کی دوستی کی نفی کردی جو بظاہر نفی ہے مگر مراد نہی ہے (یعنی غیر مہاجر سے دوستی مت کرو) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فاسق مسلمان کی دوستی صالح مؤمن کیلئے اس وقت تک زیبا نہیں جب تک وہ توبہ نہ کرلے اور اگر ولایت سے مراد میراث ہو تو میراث کی نفی ہوجائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ مستفاد ہوگا کہ اختلاف دارین میراث سے مانع ہے۔ وان اسْتَنْصَرُوْکُمْ یعنی اگر غیر مہاجر مؤمن حربی دشمنوں کے مقابلہ میں تم سے دینی مدد کے خواستگار ہوں تو ان کی مدد کرنی تم پر واجب ہے۔ الاعلی قومہاں جس (کافر) قوم سے تمہارا معاہدۂ (صلح) ہو تو اس کے خلاف مدد کرنی درست نہیں ‘ عہدشکنی جائز نہیں ‘ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ابوجندل کی مدد نہیں کی۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ سورة الفتح میں ذکر کردیا گیا ہے۔ وا اللہ بما تعملون بصیر اس آیت میں حدود شرع سے تجاوز کرنے کی ممانعت اور بازداشت ہے۔
Top