Al-Qurtubi - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب) پیدا کئے گئے ہیں
افلاینظرون الی الابل کیف خلقت۔ مفسرین نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے جنت و دوزخ کے اہل کا ذکر کیا تو کفار اس پر متعجب ہوئے انہوں نے جھٹلایا اور انکار کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنی صنعت اور قدرت کا ذکر کیا اور یہ ذکر کیا کہ وہ ہر چیز پر قادر اس طرح ہے جس طرح اس نے حیوانات، آسمان اور زمین کو پیدا کیا پھر پہلے اونٹ کا ذکر کیا کیونکہ عربوں میں یہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہوں نے ہاتھیوں کو نہیں دیکھا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم مخلوق پر متنبہ کیا اللہ تعالیٰ اسے ایک چھوتے سے بچے کے لیے مسخر کردیا ہے جو اس کی مہار پکڑ لیتا ہے اور اسے بٹھاتا ہے اور اٹھاتا ہے وہ اس کے اوپر سامان لادتا ہے جب کہ وہ بیٹھا ہواہوتا ہے وہ بھاری وزن کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے یہ وصف کسی اور جاندار میں نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے ایک عظیم چیز دکھائی جو اس کی مخلوقات میں سے ایک چھوٹی سی چیز کے لیے مسخر کردی گئی ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کی توحید اور عظیم قدرت پر راہنمائی کرتی ہے۔ ایک حکیم کے بارے میں حکایت بیان کی گئی ہے۔ اس کے سامنے اونٹ اور اس کی عجیب و غریب تخلیق کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جبکہ وہ ایسے علاقے میں پیدا ہوا تھا جہاں اونٹ نہیں ہوتے تھے اس نے غور کیا اور کہا ممکن ہے اس کی گردن لمبی ہو اور جب اللہ تعالیٰ نے اسے خشکی کی کشتیاں بنایا تو اسے پیاس برداشت کرنے پر صابربنادیا یہاں تک کہ وہ دس دن سے زائد پیاسارہ سکتا ہے اور اسے اس قابل بنایا کہ جنگلوں اور صحراؤں میں ہر شی کو چرلیتا ہے جسے دوسرے جانور نہیں چرتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے بلند پلنگوں کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ہم اس پر کیسے چڑھیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل کیا اور یہ واضح کیا اونٹ بیٹھتے ہیں یہاں تک کہ ان پر بوجھ لادا جاتا ہے پھر وہ کھڑے ہوجاتے ہیں اس طرح وہ پلنگ نیچے ہوجاتے ہیں پھر بلند ہوجاتے ہیں اس معنی کی وضاحت قتادہ، مقاتل اور دوسرے علماء نے کی ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہاں ابل سے مراد بادل کے عظیم ٹکڑے ہیں یہ مبرد نے کہا، ثعلبی نے کہا، ابل کا یہاں معنی بادل کیا گیا ہے ہم نے ائمہ کی کتابوں میں اس کی کوئی اصل نہیں دیکھی۔ میں کہتا ہوں، اصمعی ابوسعید، عبدالملک بن قریب نے ذکر کیا اور ابوعمرو نے کہا، جس نے، افلاینظرون الی الابل کیف خلقت۔ میں الابل کو تخفیف کے ساتھ پڑھا اس نے اس سے مراد اونٹ لیا ہے کیونکہ یہ چار ٹانگوں والا ہے وہ بیٹھتا ہے تو اس پر بوجھ لادا جاتا ہے جب کہ دوسرے جانوروں پر اس وقت بوجھ لادا جاتا ہے جب وہ کھڑے ہوتے ہیں جس نے الابل کو لام شدہ کے ساتھ پڑھا ہے اس نے اس سے مراد بادل لیا ہے جو پانی اور بارش کو اٹھاتا ہے۔ ماوردی نے کہا : ابل میں تو دو توج ہیں ہیں۔ دونوں سے زیادہ نمایاں اور مشہور ہے وہ یہ ہے کہ یہ چوپایا ہے۔ یہ بادل ہے اگر اس سے مراد بادل ہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اور تمام مخلوقات کے منافع عام پر دال ہے اگر مراد چوپاؤں میں سے اونٹ ہیں تو کیونکہ تمام حیوانات سے زیادہ منافع کو جامع ہے کیونکہ حیوانات کی چارقسمیں ہیں۔ (1) دودھ دینے والے (2) سواری والے (3) کھائے جانے والے (4) باربرداری کے کام آنے والے۔ اونٹ ان چاروں کو جامع ہے اس میں نعمت عام ہے اور اس میں قدرت زیادہ مکمل ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس کا خصوصا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ گھٹلی اور وقت (صحرائی دانہ) کھاتا ہے اور دودھ دیتا ہے، حضرت حسن بصری سے اس کے بارے میں پوچھا گیا اور کہا، ہاتھی عجوبہ ہونے میں بڑھ کر ہے ؟ فرمایا عرب کا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا پھر وہ خنزیر کی طرح ہے اس کا گوشت نہیں کھایا جاتا اس کی پیٹھ پر سوار نہیں ہوا جاتا اور اس کا دودھ نہیں دوہا جاتا، قاضی شریح کہا کرتے تھے، ہمیں کناسہ (کوفہ کی منڈی) کی طرف لے چلو تاکہ ہم اونٹ کو دیکھیں کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا ہے، الابل کے لفظ میں کوئی واحد نہیں یہ مونث ہے کیونکہ اسم جمع کے لفظوں میں کوئی واحد نہیں ہوتا جب اسم جمع غیرانسانوں کے لیے استعمال ہو تو اس میں تانیث لازمی ہوتی ہے جب تو اس کو مصغر بنائے تو اس پر ھا داخل کرے گا تو تو کہے گا، ابیلۃ اغنیمۃ، وغیرہ بعض اوقات ابل کو ابل پڑھتے ہیں اس کی جمع آبالی آتی ہے۔
Top