Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Hijr : 89
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ
لَقَدْ تَّابَ
: البتہ توجہ فرمائی
اللّٰهُ
: اللہ
عَلَي
: پر
النَّبِيِّ
: نبی
وَالْمُهٰجِرِيْنَ
: اور مہاجرین
وَالْاَنْصَارِ
: اور انصار
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
اتَّبَعُوْهُ
: اس کی پیروی کی
فِيْ
: میں
سَاعَةِ
: گھڑی
الْعُسْرَةِ
: تنگی
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
مَا كَادَ
: جب قریب تھا
يَزِيْغُ
: پھرجائیں
قُلُوْبُ
: دل (جمع)
فَرِيْقٍ
: ایک فریق
مِّنْھُمْ
: ان سے
ثُمَّ
: پھر
تَابَ
: وہ متوجہ ہوا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
بِهِمْ
: ان پر
رَءُوْفٌ
: انتہائی شفیق
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اس کے کہ ان میں سے بعضوں کے دل جلد پھرجانے کو تھے۔ مشکل کی گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بیشک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا (اور) مہربان ہے۔
آیت نمبر :
117
۔ ترمذی نے روایت بیان کی ہے کہ عبد بن حمید نے ہمیں بیان کیا (اس نے کہا) ہمیں عبدالرزاق نے بیان کیا (اس نے کہا) ہمیں معمر نے زہری سے، انہوں نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے اور انہوں نے اپنے باپ سے ہمیں خبر دی کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے غزوہ تبوک تک جتنے غزوات لڑے ہیں میں سوائے بدر کے کسی غزوہ میں آپ ﷺ سے پیچھے نہیں رہا اور غزوہ بدر سے جو پیچھے رہا حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے ان میں سے کسی کو عتاب نہیں فرمایا : بیشک آپ ﷺ ایک قافلے کے ارادہ سے نکلے تھے اور قریش اپنے قافلے کی مدد کے لیے نکلے تھے، پس بغیر کسی معین پروگرام کے فریقین کا آمنا سامنا ہوگیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ مجھے میری عمر کی قسم ! بلاشبہ لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کی جنگوں میں سب سے اشرف اور بلند مرتبہ جنگ بدر کا ہے اور میں یہ پسند کرتا ہوں اے کاش ! میں لیلۃ العقبہ کی بیعت کی جگہ میں اس میں حاضر ہوتا اس وقت ہم نے اسلام پر اعتماد اور یقین کیا تھا، پھر اس کے بعد میں کبھی بھی حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے پیچھے نہیں رہا یہاں تک کہ غزوہ تبوک ہوگیا اور یہی آپ ﷺ کے غزوات میں سے آخری غزوہ تھا، اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے کوچ کا اعلان فرمایا، پھر آگے طویل حدیث ذکر کی، بیان کیا : پس میں حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی بارگارہ میں چل کر حاضر ہوا، آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے، اور آپ ﷺ (کاچہرہ مقدس) چاند کے چمکنے کی طرح چمک رہا تھا (اور روشن تھا) اور آپ ﷺ جب کسی کام سے خوش اور مسرور ہوتے تو آپ کا رخ زیبا چمک اٹھتا، پس میں آیا اور میں آپ ﷺ کے سام نے بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : ” اے کعب بن مالک تجھے بشارت اور مبارک ہو اس خیر و برکت والے دن کی جو تجھ پر آیا (اور وہ ان تمام دنوں سے بہتر اور اعلی ہے) جب سے تیری ماں نے تجھے جنم دیا ہے “۔ تو میں نے عرض کی : یا نبی اللہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ کی جانب سے یا آپ کی جانب سے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے “۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : لقد تاب اللہ علی النبی والمھجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ “۔ حتی کہ اس مقام تک پہنچ گئے۔ ان اللہ ھو التواب الرحیم “۔ انہوں نے بیان کیا : اور ہمارے بارے میں یہ آیت بھی نازل کی گئی۔ (آیت) ” اتقوا اللہ وکونوا مع الصدقین “۔ (ڈرتے رہا کرو اللہ سے اور ہوجاؤ سچے لوگوں کے ساتھ) اور آگے حدیث ذکر کی (
1
) (جامع ترمذی کتاب التفسیر جلد
2
، صفحہ
137
۔
136
) عنقریب صحیح مسلم کے حوالہ سے مکمل حدیث تین آدمیوں کے قصہ میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور علماء نے اس توبہ اور توجہ کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اور مہاجرین وانصار پر فرمائی اس کے بارے کئی اقوال ہیں۔ پس حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : وہ توبہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ پر رحمت کی توجہ فرمائی وہ آپ ﷺ کا منافقوں کو بیٹھے رہنے کی اجازت دینے کی وجہ سے تھی اور اس کی دلیل یہ قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” عفا اللہ عنک، لم اذنت لھم “۔ (التوبہ :
43
) (درگزر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ سے (لیکن) کیوں آپ نے اجازت دے دی تھی انہیں) اور مومنین پر ان میں سے بعض کے دلوں میں آپ ﷺ سے پیچھے رہنے کی طرف میلان اور رغبت آنے کی وجہ سے تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت کی توجہ یہ تھی کہ انہیں تنگی کی شدت اور سختی سے بچا لیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد دشمن کی اذیت اور تکلیف سے خلاصی اور نجات دلانا ہے، اور اسے توبہ سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اس میں توبہ کا معنی موجود ہے اگرچہ یہ اس کی تعریف سے خارج ہے اور وہ پہلے حالت کی طرف لوٹنا اور رجوع کرنا ہے اور اہل معانی نے کہا ہے : بیشک حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کا ذکر توبہ میں کیا گیا ہے کیونکہ جب آپ ہی ان کی توبہ کا سبب ہیں تو پھر آپ ﷺ کا ذکر ان کے ساتھ کیا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فان للہ خمسہ وللرسول “۔ (الانفال :
41
) (تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس کا پانچواں حصہ اور رسول کے لیے) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ “ یعنی جنہوں نے تنگی کے وقت میں آپ کی اتباع کی، اور مراد اس غزوہ کے تمام اوقات ہیں، اور اس سے اس کی معین ساعت مراد نہیں لی، اور یہ بھی کہا گیا ہے ؛ (آیت) ” ساعۃ العسرۃ “ سے مراد وہ شدید ترین ساعت ہے جو اس غزوہ کے دوران ان پر گزری، اور العسرۃ سے مراد معاملے کی صعوبت اور شدت ہے حضرت جابر ؓ نے بیان کیا ہے کہ ان پر سواریوں کی تنگی، زاد راہ کی تنگی اور پانی کی تنگی یہ سب ان پر جمع ہوگئی تھیں (
1
) (تفسیر طبری، سورة توبہ جلد
11
صفحہ
67
) حسن نے کہا ہے : مسلمانوں کی تنگی کی حالت یہ تھی کہ وہ ایک اونٹ پر نکل رہے تھے جسے وہ اپنے درمیان روکے ہوئے تھے، اور ان کا زاد راہ گھن لگی کھجوریں، متغیر جو اور بدبودار چربی تھی اور کوئی گروہ نکل رہا ہے کہ ان کے پاس سوائے کھجوروں کے اور کچھ نہیں تھا اور جب ان میں سے کسی کو بھوک لگتی تو وہ کھجور کا ایک ٹکڑا لیتا یہاں تک کہ اس کا ذائقہ پالیتا۔ پھر وہ اسے اپنے ساتھی کو دے دیتا یہاں تک کہ وہ اس پر پانی کا گھونٹ پی لیتا اسی طرح وہ کرتے رہتے یہاں تک کہ وہ کھجور ان کے آخری ساتھی تک پہنچ جاتی اور کھجور میں سوائے گٹھلی کے کچھ باقی نہ بچتا پس وہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ پورے صدق ویقین کے ساتھ چلتے رہے۔ اور حضرت عمر ؓ سے (آیت) ” ساعۃ العسرۃ “۔ کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ہم شدید گرمی میں نکلے اور ایک منزل پر جا اترے وہاں شدید پیاس نے ہمیں آ لیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ ہماری گردنیں پیاس سے کٹ جائیں گی، یہاں تک کہ ایک آدمی اپنا اونٹ ذبح کرتا اور اس کے گوبر کو نچوڑتا اسے پیتا اور مابقی اپنے جگر پر رکھ لیتا، تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ بیشک اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و برکت کی دعا کا عادی بنایا ہے سو آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم اسے پسند کرتے ہو ؟ “ عرض کی : ہاں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور انہیں واپس نہ لوٹایا یہاں تک کہ آسمان نے سایہ کردیا اور پھر برسنے لگا، پس انہوں نے وہ سب برتن بھر لیے جو ان کے پاس تھے پھر ہم اسے دیکھنے کے لیے گئے اور ہم نے اسے نہ پایا اور لشکر آگے گزر گیا۔ (
2
) (تفسیر طبری، زیر آیت ہذہ) حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید ؓ دونوں نے بیان کیا ہے : ہم غزوہ تبوک میں حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ تھے پس لوگوں کو بھوک نے آلیا اور انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ہمیں اجازت عطا فرمائیں تو ہم اپنے اونٹوں کو ذبح کرلیں اور ہم انہیں کھائیں اور چکنائی حاصل کریں۔ (تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم کرو “ ) اتنے میں حضرت عمر ؓ آگئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اگر انہوں نے ایسا کی تو سواریاں کم ہوجائیں گی، البتہ آپ انہیں ان کے فالتوں زاد راہ لانے کا کہیے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں برکت کی دعا فرمائیے شاید اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے، آپ نے فرمایا : ” ہاں “ پھر چمڑے کا ایک ٹکڑا منگایا اور اسے بچھا دیا گیا، پھر آپ نے بچا ہوا زاد راہ لانے کی دعوت دی پس ایک آدمی ایک مشت مکئی لا رہا ہے اور دوسرا ایک مشت کھجور لے کر آتا ہے اور ایک اور گوشت کا ٹکڑا لے کر آتا ہے یہاں تک کہ اس چمڑے کے ٹکڑے پر تھوڑی سی شی جمع ہوگئی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا ہے : پس میں نے اسے پھیلایا تو وہ بکریوں کے باڑے کی مقدار تھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا : ” تم اپنے برتنوں میں ڈال لو “۔ پس انہوں نے اسے اپنے برتنوں میں ڈال لیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے ! یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن باقی نہ رہا مگر انہوں نے اسے بھر لیا اور قوم نے اسے کھایا یہاں تک کہ وہ سیر ہوگئے اور کچھ فالتوں بھی بچ گیا تو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا : ” میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے ان دونوں کے ساتھ ان میں شک کرتے ہوئے ملاقات کرے گا تو اسے جنت سے روک دیا جائے گا “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
1
، صفحہ
42
) ۔ اسے مسلم نے اپنی صحیح میں انہی الفاظ اور معنی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ واللہ للہ۔ اور ابن عرفہ نے کہا ہے : جیش تبوک کو جیش عسرہ کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے شدید گرمی میں لوگوں کو غزوہ کی دعوت دی۔ پس یہ ان پر انتہائی سخت اور تنگی کا باعث بنا اور پھلوں کا پکنا بھی ظاہر ہوچکا تھا۔ فرمایا : جیش عسرہ کے ساتھ مثال بیان کی گئی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اس سے قبل اتنی تعداد کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، کیونکہ آپ ﷺ کے اصحاب کی تعداد غزوہ بدر میں تین سو، اس سے کچھ زائد تھی اور احد کے دن سات سو اور خبیر کے دن ایک ہزار پانچ سو فتح مکہ کے دن دس ہزار اور غزوہ حنین میں تعداد بارہ ہزار تھی، اور غزوہ تبوک میں آپ کا لشکر تیس ہزار سے زائد تھا اور یہ آپ ﷺ کا آخری غزوہ تھا، رسول اللہ ﷺ رجب میں نکلے اور تبوک میں شعبان اور رمضان کے کچھ دن قیام کیا اور اپنے دستے بھیجے اور کئی اقوام کے ساتھ جزیہ پر صلح کی۔ اور اس غزوہ میں آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو پیچھے نکلے اور آپ کو اس کی اطلاع دی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اما ترضی ان تکون فی بمنزلۃ ھ اورن من موسیٰ (
2
) (صحیح بخاری کتاب الجہاد جلد
2
، صفحہ
633
) (کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ تو میرے پیچھے اس طرح ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے ہارون (علیہ السلام) تھے) اور بیان فرمایا کہ آپ ﷺ کے حکم سے آپ کا بیٹھنا اجر میں آپ کے ساتھ نکلنے والے کے برابر ہے، کیونکہ اس کا دارومدار شارع کے حکم پر ہے۔ بیشک اس کو غزوہ تبوک کہا گیا ہے کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو دیکھا کہ وہ تبوک کی دلدلی زمین میں لے لے کر داخل ہو رہے ہیں اور اسے حرکت دے رہے ہیں تاکہ پانی نکل آئے تو آپ نے فرمایا : مازلتم تبوکونھا بوکا ‘ پس اسی وجہ سے اس غزوہ کا نام غزوہ تبوک رکھ دیا گیا۔ الحسی (کسرہ کے ساتھ) وہ دلدل (پانی) جسے ریتلی زمین جذب کرلیتی ہے۔ پس وہ صلابت (سخت زمین) تک پہنچ جائے تو وہ اسے روک لیتی ہے پس تو اس سے ریت کو کھود کر اسے نکال سکتا ہے اور یہی احتساء (کھودنا) ہے۔ یہ جوہری نے کہا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من بعد ما کا دیزیغ قلوب فریق منھم “۔ قلوب سیبویہ کے نزدیک تزیغ کے ساتھ مرفوع ہے اور کا د میں کان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے الحدیث مضمر ہوگا۔ کیونکہ خبر اسے اسی طرح لازم ہوتی ہے جیسے کان کو لازم ہوتی ہے۔ اور اگر تو چاہے تو کا د کے ساتھ اسے رفع دے، اور تقدیر عبارت ہوگی : من بعد ما کا د قلوب فریق منھم تزیغ اور اعمش حمزہ اور حفص نے یا کے ساتھ یزیغ پڑھا ہے۔ اور ابو حاتم نے یہ گمان کیا ہے کہ جس نے یا کے ساتھ یزیغ پڑھا ہے تو ایہ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ قلوب کو کا د کے ساتھ رفع دے۔ نحاس نے کہا ہے : وہ جسے انہوں نے جائز نہیں کہا وہ دوسرے کے نزدیک تمام کو مذکر قرار دینے کی بنا پر جائز ہے۔ فراء نے بیان کیا ہے : رجب البلاد وارحبت (یعنی اس میں مذکر ومونث دونوں جائز ہیں) اور رحبت اہل حجاز کی لغت ہے اور تزیغ کے معنی میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ تھکاوٹ، مشقت اور شدت کے ساتھ وہ (دل) ضائع ہوجائیں، اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ ممانعت اور نصرت میں حق سے پھرجائیں اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کے بعد کہ ان میں سے ایک فریق نے پیچھے بیٹھے رہنے اور نافرمانی کا قصد کیا پھر وہ آپ کے ساتھ مل گئے اور یہ بھی کہا گیا ہے : انہوں نے واپس پلٹنے کا قصد کیا پس اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کی توجہ فرمائی اور انہوں اس کے بارے حکم دیا۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ثم تاب علیھم “۔ کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کا ان پر توجہ فرمانا یہ ہے کہ اس نے ان کے دلوں کا تدارک کیا یہاں تک کہ وہ ٹیڑھے نہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے اولیاء اور دوستوں کے ساتھ یہی سنت ہے جب وہ کسی ہلاکت پر جھانکنے لگیں اور وہ اپنے آپ کو ہلاکت پر ٹھہرالیں تو وہ ان پر سخاوت کا بادل برساتا ہے اور ان کے دلوں ان کو زندہ کردیتا ہے، شاعر کہتا ہے : منک ارجو ولست اعرف ربا یرتجی منہ بعض مامنک ارجو : واذا اشتدت الشدائد فی الارض علی الخلق فاستغاثوا وعجوا : وابتلیت العباد بالخوف والجوع وصروا علی الذنوب ولجوا : لم یکن لی سواک ربی ملاذ فتیقنت اننی بک ان جو : اور اللہ تعالیٰ نے ثلاثہ (تین) کے حق میں فرمایا : (آیت) ” ثم تاب علیھم لیتوبوا “۔ (تب اللہ تعالیٰ ان پر مائل بکرم ہوا تاکہ وہ بھی رجوع کریں) پھر کہا گیا ہے : (آیت) ” ثم تاب علیھم “ کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کی توفیق دی تاکہ وہ توبہ کرلیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” تاب علیھم “ کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں وسعت دے دی اور انہیں سزا دینے میں جلدی نہ کی تاکہ توبہ کرلیں، اور یہ قول بھی ہے : ان پر رحمت کی توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کی توبہ فرمائی تاکہ وہ ان سے حالت رضا کی طرف لوٹ آئیں۔ المختصر یہ کہ اگر ان کے بارے میں پہلے اس کے علم میں نہ ہوتا کہ اس نے ان کے لیے توبہ کا فیصلہ کیا ہے تو وہ توبہ نہ کرتے، اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے : تم عمل کرو پس ہر وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ (اعملوا فکل میسرلما خلق لہ) (صحیح مسلم، کتاب القدر، جلد
2
، صفحہ
334
)
Top