Al-Qurtubi - Al-Hijr : 89
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ
لَقَدْ تَّابَ : البتہ توجہ فرمائی اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر النَّبِيِّ : نبی وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْهُ : اس کی پیروی کی فِيْ : میں سَاعَةِ : گھڑی الْعُسْرَةِ : تنگی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا كَادَ : جب قریب تھا يَزِيْغُ : پھرجائیں قُلُوْبُ : دل (جمع) فَرِيْقٍ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر تَابَ : وہ متوجہ ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّهٗ : بیشک وہ بِهِمْ : ان پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اس کے کہ ان میں سے بعضوں کے دل جلد پھرجانے کو تھے۔ مشکل کی گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بیشک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا (اور) مہربان ہے۔
آیت نمبر : 117۔ ترمذی نے روایت بیان کی ہے کہ عبد بن حمید نے ہمیں بیان کیا (اس نے کہا) ہمیں عبدالرزاق نے بیان کیا (اس نے کہا) ہمیں معمر نے زہری سے، انہوں نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے اور انہوں نے اپنے باپ سے ہمیں خبر دی کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے غزوہ تبوک تک جتنے غزوات لڑے ہیں میں سوائے بدر کے کسی غزوہ میں آپ ﷺ سے پیچھے نہیں رہا اور غزوہ بدر سے جو پیچھے رہا حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے ان میں سے کسی کو عتاب نہیں فرمایا : بیشک آپ ﷺ ایک قافلے کے ارادہ سے نکلے تھے اور قریش اپنے قافلے کی مدد کے لیے نکلے تھے، پس بغیر کسی معین پروگرام کے فریقین کا آمنا سامنا ہوگیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ مجھے میری عمر کی قسم ! بلاشبہ لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کی جنگوں میں سب سے اشرف اور بلند مرتبہ جنگ بدر کا ہے اور میں یہ پسند کرتا ہوں اے کاش ! میں لیلۃ العقبہ کی بیعت کی جگہ میں اس میں حاضر ہوتا اس وقت ہم نے اسلام پر اعتماد اور یقین کیا تھا، پھر اس کے بعد میں کبھی بھی حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے پیچھے نہیں رہا یہاں تک کہ غزوہ تبوک ہوگیا اور یہی آپ ﷺ کے غزوات میں سے آخری غزوہ تھا، اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے کوچ کا اعلان فرمایا، پھر آگے طویل حدیث ذکر کی، بیان کیا : پس میں حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی بارگارہ میں چل کر حاضر ہوا، آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے، اور آپ ﷺ (کاچہرہ مقدس) چاند کے چمکنے کی طرح چمک رہا تھا (اور روشن تھا) اور آپ ﷺ جب کسی کام سے خوش اور مسرور ہوتے تو آپ کا رخ زیبا چمک اٹھتا، پس میں آیا اور میں آپ ﷺ کے سام نے بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : ” اے کعب بن مالک تجھے بشارت اور مبارک ہو اس خیر و برکت والے دن کی جو تجھ پر آیا (اور وہ ان تمام دنوں سے بہتر اور اعلی ہے) جب سے تیری ماں نے تجھے جنم دیا ہے “۔ تو میں نے عرض کی : یا نبی اللہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ کی جانب سے یا آپ کی جانب سے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے “۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : لقد تاب اللہ علی النبی والمھجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ “۔ حتی کہ اس مقام تک پہنچ گئے۔ ان اللہ ھو التواب الرحیم “۔ انہوں نے بیان کیا : اور ہمارے بارے میں یہ آیت بھی نازل کی گئی۔ (آیت) ” اتقوا اللہ وکونوا مع الصدقین “۔ (ڈرتے رہا کرو اللہ سے اور ہوجاؤ سچے لوگوں کے ساتھ) اور آگے حدیث ذکر کی (1) (جامع ترمذی کتاب التفسیر جلد 2، صفحہ 137۔ 136) عنقریب صحیح مسلم کے حوالہ سے مکمل حدیث تین آدمیوں کے قصہ میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور علماء نے اس توبہ اور توجہ کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اور مہاجرین وانصار پر فرمائی اس کے بارے کئی اقوال ہیں۔ پس حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : وہ توبہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ پر رحمت کی توجہ فرمائی وہ آپ ﷺ کا منافقوں کو بیٹھے رہنے کی اجازت دینے کی وجہ سے تھی اور اس کی دلیل یہ قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” عفا اللہ عنک، لم اذنت لھم “۔ (التوبہ : 43) (درگزر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ سے (لیکن) کیوں آپ نے اجازت دے دی تھی انہیں) اور مومنین پر ان میں سے بعض کے دلوں میں آپ ﷺ سے پیچھے رہنے کی طرف میلان اور رغبت آنے کی وجہ سے تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت کی توجہ یہ تھی کہ انہیں تنگی کی شدت اور سختی سے بچا لیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد دشمن کی اذیت اور تکلیف سے خلاصی اور نجات دلانا ہے، اور اسے توبہ سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اس میں توبہ کا معنی موجود ہے اگرچہ یہ اس کی تعریف سے خارج ہے اور وہ پہلے حالت کی طرف لوٹنا اور رجوع کرنا ہے اور اہل معانی نے کہا ہے : بیشک حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کا ذکر توبہ میں کیا گیا ہے کیونکہ جب آپ ہی ان کی توبہ کا سبب ہیں تو پھر آپ ﷺ کا ذکر ان کے ساتھ کیا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فان للہ خمسہ وللرسول “۔ (الانفال : 41) (تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس کا پانچواں حصہ اور رسول کے لیے) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ “ یعنی جنہوں نے تنگی کے وقت میں آپ کی اتباع کی، اور مراد اس غزوہ کے تمام اوقات ہیں، اور اس سے اس کی معین ساعت مراد نہیں لی، اور یہ بھی کہا گیا ہے ؛ (آیت) ” ساعۃ العسرۃ “ سے مراد وہ شدید ترین ساعت ہے جو اس غزوہ کے دوران ان پر گزری، اور العسرۃ سے مراد معاملے کی صعوبت اور شدت ہے حضرت جابر ؓ نے بیان کیا ہے کہ ان پر سواریوں کی تنگی، زاد راہ کی تنگی اور پانی کی تنگی یہ سب ان پر جمع ہوگئی تھیں (1) (تفسیر طبری، سورة توبہ جلد 11 صفحہ 67) حسن نے کہا ہے : مسلمانوں کی تنگی کی حالت یہ تھی کہ وہ ایک اونٹ پر نکل رہے تھے جسے وہ اپنے درمیان روکے ہوئے تھے، اور ان کا زاد راہ گھن لگی کھجوریں، متغیر جو اور بدبودار چربی تھی اور کوئی گروہ نکل رہا ہے کہ ان کے پاس سوائے کھجوروں کے اور کچھ نہیں تھا اور جب ان میں سے کسی کو بھوک لگتی تو وہ کھجور کا ایک ٹکڑا لیتا یہاں تک کہ اس کا ذائقہ پالیتا۔ پھر وہ اسے اپنے ساتھی کو دے دیتا یہاں تک کہ وہ اس پر پانی کا گھونٹ پی لیتا اسی طرح وہ کرتے رہتے یہاں تک کہ وہ کھجور ان کے آخری ساتھی تک پہنچ جاتی اور کھجور میں سوائے گٹھلی کے کچھ باقی نہ بچتا پس وہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ پورے صدق ویقین کے ساتھ چلتے رہے۔ اور حضرت عمر ؓ سے (آیت) ” ساعۃ العسرۃ “۔ کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ہم شدید گرمی میں نکلے اور ایک منزل پر جا اترے وہاں شدید پیاس نے ہمیں آ لیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ ہماری گردنیں پیاس سے کٹ جائیں گی، یہاں تک کہ ایک آدمی اپنا اونٹ ذبح کرتا اور اس کے گوبر کو نچوڑتا اسے پیتا اور مابقی اپنے جگر پر رکھ لیتا، تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ بیشک اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و برکت کی دعا کا عادی بنایا ہے سو آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم اسے پسند کرتے ہو ؟ “ عرض کی : ہاں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور انہیں واپس نہ لوٹایا یہاں تک کہ آسمان نے سایہ کردیا اور پھر برسنے لگا، پس انہوں نے وہ سب برتن بھر لیے جو ان کے پاس تھے پھر ہم اسے دیکھنے کے لیے گئے اور ہم نے اسے نہ پایا اور لشکر آگے گزر گیا۔ (2) (تفسیر طبری، زیر آیت ہذہ) حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید ؓ دونوں نے بیان کیا ہے : ہم غزوہ تبوک میں حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ تھے پس لوگوں کو بھوک نے آلیا اور انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ہمیں اجازت عطا فرمائیں تو ہم اپنے اونٹوں کو ذبح کرلیں اور ہم انہیں کھائیں اور چکنائی حاصل کریں۔ (تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم کرو “ ) اتنے میں حضرت عمر ؓ آگئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اگر انہوں نے ایسا کی تو سواریاں کم ہوجائیں گی، البتہ آپ انہیں ان کے فالتوں زاد راہ لانے کا کہیے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں برکت کی دعا فرمائیے شاید اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے، آپ نے فرمایا : ” ہاں “ پھر چمڑے کا ایک ٹکڑا منگایا اور اسے بچھا دیا گیا، پھر آپ نے بچا ہوا زاد راہ لانے کی دعوت دی پس ایک آدمی ایک مشت مکئی لا رہا ہے اور دوسرا ایک مشت کھجور لے کر آتا ہے اور ایک اور گوشت کا ٹکڑا لے کر آتا ہے یہاں تک کہ اس چمڑے کے ٹکڑے پر تھوڑی سی شی جمع ہوگئی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا ہے : پس میں نے اسے پھیلایا تو وہ بکریوں کے باڑے کی مقدار تھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا : ” تم اپنے برتنوں میں ڈال لو “۔ پس انہوں نے اسے اپنے برتنوں میں ڈال لیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے ! یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن باقی نہ رہا مگر انہوں نے اسے بھر لیا اور قوم نے اسے کھایا یہاں تک کہ وہ سیر ہوگئے اور کچھ فالتوں بھی بچ گیا تو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا : ” میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے ان دونوں کے ساتھ ان میں شک کرتے ہوئے ملاقات کرے گا تو اسے جنت سے روک دیا جائے گا “ (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 42 ) ۔ اسے مسلم نے اپنی صحیح میں انہی الفاظ اور معنی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ واللہ للہ۔ اور ابن عرفہ نے کہا ہے : جیش تبوک کو جیش عسرہ کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے شدید گرمی میں لوگوں کو غزوہ کی دعوت دی۔ پس یہ ان پر انتہائی سخت اور تنگی کا باعث بنا اور پھلوں کا پکنا بھی ظاہر ہوچکا تھا۔ فرمایا : جیش عسرہ کے ساتھ مثال بیان کی گئی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اس سے قبل اتنی تعداد کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، کیونکہ آپ ﷺ کے اصحاب کی تعداد غزوہ بدر میں تین سو، اس سے کچھ زائد تھی اور احد کے دن سات سو اور خبیر کے دن ایک ہزار پانچ سو فتح مکہ کے دن دس ہزار اور غزوہ حنین میں تعداد بارہ ہزار تھی، اور غزوہ تبوک میں آپ کا لشکر تیس ہزار سے زائد تھا اور یہ آپ ﷺ کا آخری غزوہ تھا، رسول اللہ ﷺ رجب میں نکلے اور تبوک میں شعبان اور رمضان کے کچھ دن قیام کیا اور اپنے دستے بھیجے اور کئی اقوام کے ساتھ جزیہ پر صلح کی۔ اور اس غزوہ میں آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو پیچھے نکلے اور آپ کو اس کی اطلاع دی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اما ترضی ان تکون فی بمنزلۃ ھ اورن من موسیٰ (2) (صحیح بخاری کتاب الجہاد جلد 2، صفحہ 633) (کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ تو میرے پیچھے اس طرح ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے ہارون (علیہ السلام) تھے) اور بیان فرمایا کہ آپ ﷺ کے حکم سے آپ کا بیٹھنا اجر میں آپ کے ساتھ نکلنے والے کے برابر ہے، کیونکہ اس کا دارومدار شارع کے حکم پر ہے۔ بیشک اس کو غزوہ تبوک کہا گیا ہے کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو دیکھا کہ وہ تبوک کی دلدلی زمین میں لے لے کر داخل ہو رہے ہیں اور اسے حرکت دے رہے ہیں تاکہ پانی نکل آئے تو آپ نے فرمایا : مازلتم تبوکونھا بوکا ‘ پس اسی وجہ سے اس غزوہ کا نام غزوہ تبوک رکھ دیا گیا۔ الحسی (کسرہ کے ساتھ) وہ دلدل (پانی) جسے ریتلی زمین جذب کرلیتی ہے۔ پس وہ صلابت (سخت زمین) تک پہنچ جائے تو وہ اسے روک لیتی ہے پس تو اس سے ریت کو کھود کر اسے نکال سکتا ہے اور یہی احتساء (کھودنا) ہے۔ یہ جوہری نے کہا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من بعد ما کا دیزیغ قلوب فریق منھم “۔ قلوب سیبویہ کے نزدیک تزیغ کے ساتھ مرفوع ہے اور کا د میں کان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے الحدیث مضمر ہوگا۔ کیونکہ خبر اسے اسی طرح لازم ہوتی ہے جیسے کان کو لازم ہوتی ہے۔ اور اگر تو چاہے تو کا د کے ساتھ اسے رفع دے، اور تقدیر عبارت ہوگی : من بعد ما کا د قلوب فریق منھم تزیغ اور اعمش حمزہ اور حفص نے یا کے ساتھ یزیغ پڑھا ہے۔ اور ابو حاتم نے یہ گمان کیا ہے کہ جس نے یا کے ساتھ یزیغ پڑھا ہے تو ایہ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ قلوب کو کا د کے ساتھ رفع دے۔ نحاس نے کہا ہے : وہ جسے انہوں نے جائز نہیں کہا وہ دوسرے کے نزدیک تمام کو مذکر قرار دینے کی بنا پر جائز ہے۔ فراء نے بیان کیا ہے : رجب البلاد وارحبت (یعنی اس میں مذکر ومونث دونوں جائز ہیں) اور رحبت اہل حجاز کی لغت ہے اور تزیغ کے معنی میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ تھکاوٹ، مشقت اور شدت کے ساتھ وہ (دل) ضائع ہوجائیں، اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ ممانعت اور نصرت میں حق سے پھرجائیں اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کے بعد کہ ان میں سے ایک فریق نے پیچھے بیٹھے رہنے اور نافرمانی کا قصد کیا پھر وہ آپ کے ساتھ مل گئے اور یہ بھی کہا گیا ہے : انہوں نے واپس پلٹنے کا قصد کیا پس اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کی توجہ فرمائی اور انہوں اس کے بارے حکم دیا۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ثم تاب علیھم “۔ کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کا ان پر توجہ فرمانا یہ ہے کہ اس نے ان کے دلوں کا تدارک کیا یہاں تک کہ وہ ٹیڑھے نہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے اولیاء اور دوستوں کے ساتھ یہی سنت ہے جب وہ کسی ہلاکت پر جھانکنے لگیں اور وہ اپنے آپ کو ہلاکت پر ٹھہرالیں تو وہ ان پر سخاوت کا بادل برساتا ہے اور ان کے دلوں ان کو زندہ کردیتا ہے، شاعر کہتا ہے : منک ارجو ولست اعرف ربا یرتجی منہ بعض مامنک ارجو : واذا اشتدت الشدائد فی الارض علی الخلق فاستغاثوا وعجوا : وابتلیت العباد بالخوف والجوع وصروا علی الذنوب ولجوا : لم یکن لی سواک ربی ملاذ فتیقنت اننی بک ان جو : اور اللہ تعالیٰ نے ثلاثہ (تین) کے حق میں فرمایا : (آیت) ” ثم تاب علیھم لیتوبوا “۔ (تب اللہ تعالیٰ ان پر مائل بکرم ہوا تاکہ وہ بھی رجوع کریں) پھر کہا گیا ہے : (آیت) ” ثم تاب علیھم “ کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کی توفیق دی تاکہ وہ توبہ کرلیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” تاب علیھم “ کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں وسعت دے دی اور انہیں سزا دینے میں جلدی نہ کی تاکہ توبہ کرلیں، اور یہ قول بھی ہے : ان پر رحمت کی توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کی توبہ فرمائی تاکہ وہ ان سے حالت رضا کی طرف لوٹ آئیں۔ المختصر یہ کہ اگر ان کے بارے میں پہلے اس کے علم میں نہ ہوتا کہ اس نے ان کے لیے توبہ کا فیصلہ کیا ہے تو وہ توبہ نہ کرتے، اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے : تم عمل کرو پس ہر وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ (اعملوا فکل میسرلما خلق لہ) (صحیح مسلم، کتاب القدر، جلد 2، صفحہ 334)
Top