Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 117
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ
لَقَدْ تَّابَ : البتہ توجہ فرمائی اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر النَّبِيِّ : نبی وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْهُ : اس کی پیروی کی فِيْ : میں سَاعَةِ : گھڑی الْعُسْرَةِ : تنگی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا كَادَ : جب قریب تھا يَزِيْغُ : پھرجائیں قُلُوْبُ : دل (جمع) فَرِيْقٍ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر تَابَ : وہ متوجہ ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّهٗ : بیشک وہ بِهِمْ : ان پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اس کے کہ ان میں سے بعضوں کے دل جلد پھرجانے کو تھے۔ مشکل کی گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بیشک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا (اور) مہربان ہے۔
قول باری ہے لقد تاب اللہ علی لنبی والمھاجرین والانصار والذین اتبعوا فی ساعۃ العسرۃ اللہ نے معاف کردیا نبی کو اور ان مہاجرین کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا ۔ عسرت کی معاملے کی تنگی ، اس کی شدت اور اس کی سختی کو کہتے ہیں ۔ یہ صورت حال غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آئی تھی ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ اس غزوہ پر اس وقت نکلے تھے جب انتہائی گرمی تھی، نیز پانی اور رسد کی بھی انتہائی قلت تھی اور سواری کے جانوروں کی تعدا د بھی توڑی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کے ذکر کے ساتھ ان لوگوں کو مخصوص کردیا جنہوں نے تنگی اس گھڑی میں حضور ﷺ کا ساتھ دیا تھا ۔ اس لیے کسی صورت حال میں ساتھ دینے اور پیروی کرنے کا مرتبہ بہت اونچا ہوتا ہے اور اس کے بدلے میں ملنے والے ثواب کا درجہ بھی بہت بلند ہوتا ہے ، کیونکہ اس صورت میں انہیں بہت سی مشقتیں جھیلنی پڑتی ہیں ، انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف ان کی بصیرت اور یقین کو بایں معنی مزید جلاحاصل ہوتا ہے کہ موسم کی کوئی شدت اور راستے کی کوئی مشقت انہیں اپنے ارادے اور راہ عمل سے ہٹا نہیں سکتی ۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ایک ایسے گروہ کا بھی ذکر کیا ہے جن کے دل بس راہ حق سے ہٹنے ہی والے تھے چناچہ ارشاد ہے من بعد ما کادیر یغ قلوب فریق منھم ۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہو چلے تھے ۔ زیغ حق سے دل کے اچٹ ہوجانے کو کہتے ہیں۔ اہل ایمان کا ایک گروہ اس کے قریب ہی پہنچ چکا تھا لیکن ابھی انہوں نے اس کجی اور حق سے میلان کے مطابق عمل نہیں کیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے مواخذہ نہیں کیا اور ان کی توبہ قبول کرلی ۔ اللہ تعالیٰ نے سختی کی اس گھڑی میں حضور ﷺ کا ساتھ دینے الوں کو جس کیفیت کی بنا پر دوسروں پر فضلیت دی اسی کیفیت کی بنا پر حضرات مہاجرین کو حضرات انصار پر فضلیت عطا کی ۔ اور اسی کیفیت کی بنا پر ایمان اور اسلام میں سبقت لے جانے والوں کو دوسرے تمام لوگوں پر فضلیت دی اس لیے کہ انہیں مشقتیں برداشت کرنا پڑی تھیں اور انہوں نے ایسے وقت میں حضور ﷺ کی پیروی کر کے اپنی زبردست بصیرت اور یقین کامل کا اظہار کردیا تھا جبکہ اہل ایمان کو انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا اور دوسری طراہل کفر کو پورا غلبہ حاصل تھا اور ان کی طرف سے جو گنتی کے چند اہل ایمان تھے انہیں مسلسل اذیتیں دی جاتی تھیں ، نیز ان کی تعذیب کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
Top