Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 117
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ
لَقَدْ تَّابَ : البتہ توجہ فرمائی اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر النَّبِيِّ : نبی وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْهُ : اس کی پیروی کی فِيْ : میں سَاعَةِ : گھڑی الْعُسْرَةِ : تنگی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا كَادَ : جب قریب تھا يَزِيْغُ : پھرجائیں قُلُوْبُ : دل (جمع) فَرِيْقٍ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر تَابَ : وہ متوجہ ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّهٗ : بیشک وہ بِهِمْ : ان پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بیشک اللہ نے نبی پر اور مہاجرین اور انصار پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی جنہوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت میں دیا،216۔ بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہوچلا تھا،217۔ پھر (اللہ نے) ان لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمادی،218۔ بیشک وہ ان کے حق میں بڑا شفیق ہے بڑا رحمت والا ہے،219۔
216۔ ذکر اب پھر غزوۂ تبوک کا چلا جو اوپر بھی دور تک آچکا ہے۔ (آیت) ” تاب اللہ علی النبی “۔ نبی پر توجہ بہ رحمت یہ کہ آپ ﷺ کو نبوت سے اور امامت جہاد سے اور تمام کمالات سے سرفراز فرمایا۔ (آیت) ” والمھجرین والانصار “۔ ان انصار ومہاجرین پر توجہ بہ رحمت یہ کہ انہیں ایسے کلفت ومشقت کے جہاد میں ثابت قدم رکھا۔ (آیت) ” فی ساعۃ العسرۃ “۔ اس غزوہ کے خصوصیات جن کی بنا پر یہاں ساعۃ العسرۃ لایا گیا ہے، حسب ذیل تھے :۔ (1) شدید گرمی کا موسم، (2) باغات کی فصل تیار ہونے کا زمانہ۔ (3) مسافت دوردراز کا سفر۔ (4) مقابلہ میں منتشر ومتفرق قبائل نہیں بلکہ اعلی درجہ کی تربیت یافتہ وقواعد دان رومی شہنشاہی فوج ہر طرح کے سامان جنگ سے آراستہ۔ (5) سواری کی اتنی کمی کی ایک اونٹ دس دس آدمیوں کے حصہ میں آیا۔ (6) سامان رسد کی اتنی کمی کہ ایک ایک خرما دو دو شخصوں میں تقسیم ہوا ہے اور آخر میں اتنا بھی نہ رہ گیا، ان مصائب کی تفصیل حدیث وسیر کی کتابوں میں ملے گی۔ (آیت) ” لقد تاب۔۔۔۔ الانصار “۔ آیت مدح صحابہ کے باب میں بالکل شافی ووافی ہے۔ اور جن فرقوں نے اصحاب نبی ﷺ پر زبان طعن دراز کی ہے ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ فیہ مدح لاصحاب النبی ﷺ الذین غزوا معہ من المھاجرین والانصار واخبار بصحۃ بواطن ضمائرھم وطھارتھم لان اللہ تعالیٰ لایخبربانہ قد تاب علیھم الا وقد رضی عنھم افعالھم (جصاص) 217۔ (اور قریب تھا کہ وہ گروہ جہاد پر جانے سے ہمت ہارجائے) اے کادوالایثبتون علی اتباع الرسول (کبیر) لفظ ماکاد ”(قریب تھا) “ خود اس پر دلیل ہے کہ یہ عمل وقوع میں آیا نہیں تھا صرف آنے کے قریب تھا۔ 218۔ (کہ اس گروہ کو بھی سنبھال لیا، اور یہ لوگ ساتھ ہولئے) 219۔ (چنانچہ ہر ایک کے حال پر رحمت ہی کے ساتھ توجہ فرمائی)
Top