اِنَّھَا عَلَیْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌ۔ فِیْ عَمَدٍمُّمَدَّدَۃٍ ۔ (الہمزۃ : 8، 9)
(بیشک وہ آگ ان پر بند کردی جائے گی۔ اس حالت میں کہ وہ اونچے اونچے ستونوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ )
مجرموں کی بےبسی
گزشتہ آیات سے ایک تو آگ کی شدت اور اس کی ہولناکی سے دل سہم سہم جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کی بےبسی بھی دید کے قابل ہوگی کہ انھیں اس وادی میں پھینک کر اوپر سے اس وادی کو ڈھانک کر بند کردیا جائے گا تاکہ اس کی تپش اندر سے باہر نکلنے نہ پائے۔ اور مزید ان کی بےبسی کا حال یہ ہوگا کہ وہ لمبے لمبے ستونوں اور بڑی بڑی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوں گے۔ اور حضرت ابن عباس ( رض) کہتے ہیں کہ آگ کی لپٹیں اور اس کے منہ زور شعلے لمبے لمبے ستونوں جیسے ہوں گے۔
مقصود صرف یہ ہے کہ انسان کو جس چیز نے سب سے زیادہ تباہ کیا ہے وہ اس کی زبان کا بگاڑ اور اس کے اخلاق کی پستی ہے۔ اور جس چیز نے انسانیت کو نہ صرف خطرات کی نذر کیا بلکہ حیوانوں سے بھی نیچے گرایا، وہ اس کی مال و دولت سے حد سے بڑھی ہوئی محبت ہے۔ اور انسان عجیب واقع ہوا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے اسے علم و دانش کا سرمایہ بخشا ہے اور اس کے دل کو عشق کے گداز سے معمور فرمایا ہے اور دوسری طرف اس کی پستی کا عالم یہ ہے کہ مال و دولت کی محبت کا اسیر ہو کر وہ انسانی اقدار تک کو بھول جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ دنیا میں رشتوں ناتوں کی شکست و ریخت، رحم و مروت کے جذبات کی تباہی، اخوت و محبت کا فقدان۔ اور آخرت میں وہ ہولناک انجام ہے جس کا نقشہ اوپر کی آیات میں کھینچا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس تباہی سے محفوظ رکھے۔