Ruh-ul-Quran - Maryam : 10
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
جو اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں نامراد ہونے والے۔ تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے، تو اس نے تم کو زندہ کیا۔ پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَا کُمْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعًاق ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍط وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ (البقرۃ : 28 تا 29) (تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے، تو اس نے تم کو زندہ کیا۔ پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے، پھر آسمان کی طرف توجہ کی اور سات آسمان استوار کردئیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ) عقیدہ آخرت پر اماتت واحیا سے استدلال زیرِ بحث رکوع میں پہلے عقیدئہ توحید کو دلائل کے ساتھ بیان فرمایا، اس کے بعد عقیدئہ رسالت کو اعجازِ قرآن کی دلیل کے ساتھ مؤکد کیا۔ لیکن دونوں جگہ توحید و رسالت کا نام لیے بغیردلائل کے انداز اور دلائل کی زبان سے ان عقیدوں کی طرف متوجہ کیا گیا۔ اب پیش نظر آیات کریمہ میں قیامت اور آخرت کے عقیدے کو بیان کیا جارہا ہے۔ لیکن یہاں بھی قیامت اور آخرت کا نام مذکور نہیں لیکن دلیل کی زبان بول رہی ہے کہ قیامت ثابت کی جارہی ہے اور مزید قابل توجہ بات یہ ہے کہ قیامت کے انکار کو اللہ کا انکار قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح رسالت کا انکار رسول اللہ ﷺ کا انکار ہے اور جس طرح توحید کا انکار اللہ کا انکار ہے اسی طرح قیامت کا انکار بھی اللہ کا انکار ہے کیونکہ قیامت کا انکار نتیجہ ہے اللہ کی چند بنیادی صفات کے انکار کا۔ جو آدمی اللہ کے بارے میں اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ زندگی اور موت اسی کے قبضے میں ہے وہی محیٖ بھی ہے اور ممیت بھی ہے۔ وہ کبھی اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ ایک دفعہ تو زندہ کرسکتا ہے دوبارہ نہیں کرسکتا اور پھر اگر دوبارہ زندہ کردے تو زندگی کو دوام نہیں دے سکتا۔ اسی طرح جو آدمی اللہ کی قدرت کاملہ کو تسلیم کرتا ہے اور وہ مانتا ہے کہ وہی قادر مطلق ہے تو وہ کبھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ کبھی ایک ایسا دن بھی آئیگا جب تمام دنیا تباہ کردی جائے گی اور پھر کبھی ایسا دن آئے گا جب تمام جن وانس دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے کیونکہ اللہ کے قادر مطلق ہونے کا تو مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ جب چاہے کائنات کو بسادے اور جب چاہے اس کی بساط لپیٹ دے اور جب چاہے اسے دوبارہ زندہ کردے اور پھر اس زندگی کو دوام دے دے۔ اسی طرح جو آدمی اللہ کی صفت عدل کو تسلیم کرتا ہے وہ کبھی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پوری طرح ظہور پذیر ہوگی۔ شہنشاہ اور بادشاہ بھی، عالمگیر اور عالم پناہ بھی، انبیاء اور اولیاء بھی، امراء اور علماء بھی، مزدور اور گدا بھی سب اپنے اپنے نامہ اعمال لیے اپنے اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے کھڑے ہوں گے۔ وہ نیکیوں پر اجر دے گا، برائیوں پر سزا دے گا۔ ظالموں سے ظلم کا حساب لے گا۔ مظلوموں اور بےنوائوں کو حق دلایاجائے گا۔ جنھیں دنیا میں ظلم سے نجات نہ ملی اور وہ اپنی بےکسی کے باعث اپنا بدلہ نہ لے سکے اندھی گولی کے مقتول کے وارث قاتل کو نہ پکڑسکے اور قانون کی نگاہ بھی وہاں تک نہ پہنچ سکی اور اگر کبھی کوئی بڑا مجرم پکڑا گیا تو عدالت اس کی قوت کے سامنے سرنگوں ہوگئی اگر کسی نے سینکڑوں اور ہزاروں قتل کیے تو اولاً قانون اسے پکڑ نہ سکا اور اگر پکڑا بھی گیا تو ایک قتل کے بدلے میں اس کی گردن کٹ گئی۔ لیکن باقی سب مقتولوں کا خون رائیگاں گیا۔ لیکن قیامت کے دن ان سب سے حق دلایاجائے گا۔ ہزاروں کے قاتل کو ہزاروں بار قتل کی سزا سے گزرنا ہوگا ہر مجرم اپنے جرم کی نوعیت اور وسعت کے مطابق سز اپائے گا۔ اگر ایسا دن جہاں ہر ایک کو اس کا بدلہ ملے وجود میں نہیں آسکتا تو پھر اللہ کی صفت عدل کا ظہور کب ہوگا۔ ایسا دن چونکہ قیامت ہی ہوگا اس لیے اگر قیامت کا انکار کردیا جائے تو اللہ کی صفت عدل کا انکار کرنا پڑیگا۔ اس لیے یہاں قیامت کے انکار کو کفر قرار دیا گیا کیونکہ قیامت کا انکار مستلزم ہے اللہ کی بنیادی صفات کے انکار کو اور اللہ کی بنیادی صفات کا انکار چونکہ کفر ہے اس لیے قیامت کا انکار بھی کفر ہے۔ چناچہ انھیں باتوں کو اس آیت کریمہ میں دلیل کے طور پر پیش فرمایا کہ تم اللہ کا، یعنی قیامت کا کیسے انکار کرتے ہو ؟ کہ یہ بات تمہیں تسلیم ہے کہ تم حالت عدم میں تھے تمہارا دنیا میں کوئی وجود نہ تھا اللہ نے تمہیں پید اکرکے زندگی بخشی کہ تم کتم عدم سے وجود میں آگئے اور پھر تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ تمہارے سامنے جنازے اٹھتے ہیں اسی طرح ایک دن تمہارا جنازہ اٹھے گا اور تم بھی موت کا شکار ہوجاؤ گے۔ کتنی قومیں صفحہ ہستی پر طلوع ہوئیں اور پھر غروب ہوگئیں زندگی اور موت کا یہ کھیل ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے تمہیں بھی انکار نہیں۔ تو عجیب بات ہے کہ تم قیامت کی صورت میں ایک ہمہ گیر تباہی اور موت کا کیسے انکار کرتے ہو ؟ جو پروردگار اب لوگوں کو موت دے رہا ہے وہ سب کو یکبارگی کیوں نہیں دے سکتا اور پھر اگر وہ ہمہ گیر موت دینے کے بعد دوبارہ پھر سب کو زندہ کردے تو اس سے تمہیں انکار کیوں ؟ آج پوری دنیا میں جو لوگ زندہ ہیں یہ پچاس، سو سال پہلے نہیں تھے اور مزید اتنے سالوں کے بعد جو اب ہیں وہ بھی نہیں ہوں گے اور ان کی جگہ نئے لے چکے ہوں گے۔ جو پروردگار آج اس موت وحیات پر قادر ہے آخر وہ دوبارہ زندہ کرنے پر قادر کیوں نہیں ؟ دوسری آیت کریمہ میں امکانِ قیامت کے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے اشارہ کیا جارہا ہے کہ قیامت کا آنا ممکن ہی نہیں ضروری بھی ہے۔ کیونکہ اللہ کی ذات جس طرح عادل و قادر ہے، حکیم بھی تو ہے۔ اور کوئی حکمت والی ذات کبھی کوئی کام بےمقصد تو نہیں کیا کرتی۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونے کی طرح بچھادیا اور اسی کے اندر اس نے تمہارے لیے غذا کے خزانے رکھے اور اس زمین کی تمام نعمتوں کو تمہارے لیے یا غذا بنایا یا ابتلا بنایا پھر تمہیں ذوق تسخیر دے کر زمین کی ہر مشکل نعمت کو مسخر کرنے کی اجازت دے دی اور حلال و حرام کی تعلیم دے کر اس سے متمتع ہونے کا حق دے دیا۔ مزید یہ کہ تمہارے سروں پر آسمان کی چھت تانی اور آسمان کو جس طرح قندیلوں سے روشن کیا اسی طرح اسے سات آسمانوں میں تقسیم کردیا۔ اس کا مفہوم تو ہم نہیں سمجھتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ آسمان کی طرف سے بیشمار نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں اور ہمارے ذوق تسخیر کو انگیخت بھی کررہی ہیں۔ ذرا اندازہ کیجئے ! پروردگار نے جو اتنا بڑا خوان کرم ہمارے لیے بچھایا ہے اور ہمیں جو قدم قدم پر اپنے احسانات سے گراں بار کیا ہے تو کیا ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوگا ؟ زمین پر اگر گھاس کی کوئی پتی بھی پھوٹتی ہے تو اس کا بھی کوئی مقصد ہے تو اس کائنات کے گل سرسبد انسان کا کوئی مقصد نہ ہو اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے پروردگار نے ارشاد فرمایا : أَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثاً وَاَنَّـکُمْ اِلَینَا لاتُرْجَعُوْنَ ” کیا تم نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم نے تمہیں عبث (بےمقصد) پیدا کیا ہے کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے۔ “ یعنی ہم نے تمہیں بےمقصد پیدا نہیں کیا تمہار ایک مقصد ہے جو ہم اپنے انبیاء کرام کے ذریعے تمہیں پہنچا رہے ہیں اور اسی کا حساب لینے کے لیے ایک دن تم ہمارے پاس لائے جاؤ گے۔ تمہار اشائد گمان یہ ہے کہ اگر تم ہمارے پاس لائے بھی گئے تو تمہارے اعمال کی تفصیلات سے ہم شائد بیخبر ہوں گے۔ ایسا نہیں ہم تو ہر چیز کے جاننے والے ہیں تمہارا کوئی عمل اور تمہاری کوئی بات ہمارے علم سے باہر نہیں۔ اس لیے قیامت آئے گی اور تمہیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔
Top