Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 12
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِؕ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يُّكَذِّبُوْنِ : وہ مجھے جھٹلائیں گے
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، اے رب ! مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھ کو جھٹلا دیں گے
قَالَ رَبِّ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ ۔ وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلاَ یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰی ھٰـرُوْنَ ۔ وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّـقْـتُـلُوْنَ ۔ (الشعرآء : 12، 13، 14) (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، اے رب ! مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھ کو جھٹلا دیں گے۔ اور میرا سینہ گھٹتا ہے اور روانی سے میری زبان نہیں چلتی، آپ ہارون کی طرف وحی بھیجیں۔ اور ان کا میرے ذمے ایک جرم بھی ہے، اس لیے میں ڈرتا ہوں وہ مجھے قتل کردیں گے۔ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چند اندیشے نبوت اور رسالت ایک بہت نازک اور کٹھن ذمہ داری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کا شدید احساس تھا۔ اس احساس کے تحت آپ نے عرض کی کہ اے میرے رب، مجھے اندیشہ ہے کہ فرعون اور آل فرعون میری تکذیب کریں گے اور مجھے جھٹلا دیں گے۔ اسی شدید احساس کے تحت میرا سینہ بھنچتا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا خیال بھی ہے کہ میری زبان اظہارِ مدعا اور بحث میں بہت روانی سے نہیں چلتی۔ اور رسالت ایک ایسا منصب ہے جس میں قدم قدم پر لوگوں کے سامنے خطبہ دینے اور بعض دفعہ بحث کرنے کی نوبت آتی ہے۔ میں نے غور و فکر اور خاموشی کی زندگی گزاری ہے۔ اب اچانک مجھے ایک ایسی ضرورت سے دوچار کردیا جائے گا تو میں شاید اس سے عہدہ برآ نہ ہوسکوں، اس لیے ذمہ داری میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو میرا معاون بنا دیجیے۔ وہ میرے شریک کار کی حیثیت سے میری مدد کریں کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنی ساتھ اس منصب میں شریک کرنے کی دعا کی ہے اور اس کی وجہ یہی بیان کی ہے کہ وہ ان سے زیادہ فصیح واقع ہوئے ہیں یعنی بات کو زیادہ موثر طریقے سے اور رواں دواں انداز میں کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور مزید یہ عرض کی کہ الٰہی آپ جانتے ہیں کہ ان کا ایک گناہ اور جرم بھی میرے ذمے ہے۔ یہ دراصل اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جس کا ذکر سورة القصص میں ہے کہ بےخیالی میں ایک اسرائیلی کی مدد کرتے ہوئے ایک قبطی آپ ( علیہ السلام) کے ہاتھ سے مارا گیا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) اس کے ظلم سے ایک اسرائیلی کو بچانے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے آپ پر بھی دست درازی کی۔ آپ نے اسے روکتے ہوئے ایک مکا رسید کیا۔ مکا نہ تو آلہ قتل ہے اور نہ اقدامِ قتل پر دلالت کرتا ہے۔ یہ محض کسی کو روکنے یا سرزنش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ اتفاق تھا کہ وہ شخص اس سے مرگیا۔ فرعون کی کابینہ میں پہلے ہی کچھ لوگ آپ کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے تھے، ان کو جیسے ہی اس واقعہ کی خبر ہوئی، انھوں نے آپ کے قتل کے منصوبے باندھے اور آپ کی گرفتاری کے لیے سازش کی۔ آپ کو جیسے ہی کسی مخبر نے اطلاع دی تو آپ مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور مدین جا کر پناہ لی۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ان کا ایک قتل بھی میرے ذمے ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ اس جرم میں مجھے قتل کر ڈالیں گے۔
Top