Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 67
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے اَكْثَرُهُمْ : ان سے اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
بیشک اس واقعہ میں بہت بڑی نشانی ہے مگر ان لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ط وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ وَاِنَّ رَبَّـکَ لَھُوَالْعَزِیْزُالرَّحِیْمُ ۔ (الشعرآء : 67، 68) (بیشک اس واقعہ میں بہت بڑی نشانی ہے مگر ان لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور بیشک آپ کا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ) ترجیع کی آیت اور اس کا مفہوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کے آخر میں یہ آیت کریمہ وہی ہے جو اس کے بعد آنے والے ہر پیغمبر کی سرگزشت کے بعد آٹھ بار وارد ہوئی ہے۔ اس آیت کو ترجیع کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش آنحضرت ﷺ سے بار بار آپ کی حقانیت اور آپ کے دین کی صداقت پر کوئی نشانی مانگتے تھے۔ انھیں بار بار ہر پیغمبر کی سرگزشت کے بعد یہ آیت لا کر بتایا گیا ہے کہ تمہیں نشانی کو دیکھنے کی خواہش ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی نشانی ہوسکتی ہے کہ ایک نہایت جابر و قاہر حکمران کے سامنے نہایت بےسروسامانی کے ساتھ دو پیغمبر اللہ تعالیٰ کا دین لے کر پہنچتے ہیں اور اسے ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر ان کے مطالبے پر قدم قدم پر انھیں معجزے دکھائے جاتے ہیں جن میں سے ایک ایک معجزہ ان پیغمبروں کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ لیکن ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوئی ہے کہ سالہا سال تک نشانیاں دیکھ کر بھی وہ راہ راست اختیار نہیں کرتے، حتیٰ کہ سمندر ان کے سامنے عصائے موسیٰ کی ایک ضرب سے پھٹ گیا اور پانی پہاڑوں کی مانند دونوں طرف کھڑا ہوگیا اور بیچ میں خشک اور کشادہ راستہ بن گیا۔ ایسی صریح علامتیں دیکھ کر بھی ان لوگوں کو ہوش نہ آیا، حتیٰ کہ وہ اپنے کفر اور سرکشی سمیت پانی کی موجوں کے حوالے ہوگئے اور ان کا عبرتناک انجام آج تک دنیا کے لیے ایک مثال بنا ہوا ہے۔ لیکن ان کے لیے کوئی نشانی بھی راہ ہدایت کا نشان نہ بن سکی۔ فرعون اس وقت ہدایت کی طرف آیا جبکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب انھیں اپنی گرفت میں لے چکا تھا اور چیختا ہوا کہنے لگا : اٰمَنْتُ اَنَّـہٗ لاَ اِلٰـہَ اِلاَّالَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْاِسْرَائِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (یونس : آیت 90) قریش اور دیگر اہل مکہ کے لیے اس میں یہ نشانی ہے کہ ہٹ دھرمی اختیار کرنے والے ہمیشہ ہدایت کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ اور دوسری نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغمبر کا انکار کرنے والوں کو فوراً نہیں پکڑتا، مہلت پر مہلت دیتا چلا جاتا ہے اور اس وقت پکڑتا ہے جب اتمامِ حجت ہوجاتا اور مہلت کا وقت تمام ہوجاتا ہے۔ اور ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ رحیم ہے اس لیے وہ پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ جب وہ پکڑنے پر آتا ہے تو بڑی سے بڑی قوت بھی اس کے سامنے تنکوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ فرعون اور آل فرعون اپنی تمام قہرمانی قوتوں کے باوجود اس کی پکڑ سے بچ نہ سکے اور بحرقلزم کی موجوں کی نذر ہوگئے۔
Top