Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 67
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے اَكْثَرُهُمْ : ان سے اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
بلاشبہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے تھے ہی نہیں
اس قصہ میں بڑی نشانیاں موجود ہیں اگر وہ ان کو دیکھنا چاہیں : 67۔ وہ لوگ جو بات بات پر نشانی طلب کرتے ہیں اگر قرآن کریم کی ان آیات پر غور کریں تو کیا ان آیات میں نشانیوں کی کوئی کمی موجود ہے ایک ایک واقعہ قرآنی اپنے اندر بیسیوں نشانیاں رکھتا ہے لیکن ان نشانیوں پر کوئی غور وفکر کرنے کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ ہر آدمی اس نشانی کو نشانی ماننے کے لئے تیار ہے جب اس کی منہ مانگی نشانی اس کو اسی وقت پیش کردی جائے اور عقل کے کو تایہ لوگ منہ مانگی نشانی طلب کرتے ہیں تو بچوں کی طرح کہ مجھے دودھ میں پانی ڈال کے دو اس کو سمجھایا گیا کہ اس کا نقصان ہوگا لیکن ضدی کو نفع ونقصان سے غرض ہی کب ہوتی ہے پھر اس کی ضد کے پیش نظر اگر پانی ڈال دیا گیا تو جھٹ بولے گا نہیں مجھے یہ پانی اس سے الگ کرکے دو پھر الگ سے دیئے گئے پانی کو وہ لینے کے لئے تیار بھی نہیں وہ تو وہی پانی چاہتا ہے جو اس دودھ میں اس کی ضد کی بنا پر ڈال دیا گیا تھا پھر اس طرح وہ چاہتا کیا ہے یہی کہ جب اللہ قادر ہے تو پھر ایسا کر کیوں نہیں دیتا اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ قادر کیونکر ہے پھر اگر یہ ایک ہی کو دن ہوتا تو شاید اللہ میاں اس کی مرضی کے مطابق کرتا بھی رہتا لیکن ایسے کو دنوں اور بیوقوفوں کی تو کوئی کمی ہی نہیں پھر جب سب کے الگ الگ مطالبے ہوں گے اور ایک دوسرے کے خلاف بھی تو آکر اس نظام کے اندر رہ کر ان کے پورے کرنے کئی کوئی صورت ؟ ایک ضدی کی ضرورت ہے کہ ابھی دھوپ ہو اور دوسرا چاہتا ہے کہ ابھی بارش پھر اگر ان دونوں کو ملا کر بھی دیا جائے کہ بارش بھی ہو اور دھوپ بھی ہو پھر بھی دونوں بگڑ گئے کہ میرا مطالبہ تو بغیر دھوپ کے بارش کا تھا اور دوسرا کہتا ہے کہ جناب میرا مطالبہ تو بغیر باش کے دھوپ کا تھا تو آخر نتیجہ کیا رہا ؟ خدا تو بہرحال خدا ہی ہے لیکن کوئی بارش جس کو دھوپ کہا جاسکے اور کوئی دھوپ جس کو بارش مان لیا جائے ؟ اچھا خیر یہ تو ان نشانیاں طلب کرنے والوں کی بات تھی اور ابھی تو ہم نے صرف دو کی بات کی ہے اگر یہ بیسیوں ہی ہوجائیں گے تو پھر کیا ہوگا ؟ بہرحال ایسے میں خدائی اس کی چلے گی کہ جب وہ چاہے گا دھوپ نکال دے گا اور جب وہ چاہے گا بارش کردے گا اور اگر وہ چاہے گا تو بارش بھی ہوگی اور دھوپ بھی اب جو مانتا ہے مانے اور جو نہیں مانتا اس کی بلا سے وہ نہ مان کر بھی دیکھ لے کہ کیا کرسکتا ہے اور پھر اس کو یہی کہا جائے گا اچھا جو تو کرنا چاہتا ہے کرتا جا اور ذرا کر کے دکھا ہاں جب تک اس اللہ نے تجھے ڈھیل دی ہے تو وہی کرسکے گا جس کا تجھے اس نے اختیار دیا ہے اور تجھ کو بتایا ہے کہ یہ تیرے لئے کرنا ہے اور یہ تیرے لئے نہیں کرنا ہے لیکن کرنا یہ کرنا تیرے اختیار میں ہے ‘ ہاں ! تو کرے گا تو اسی اختیار میں رہتے ہوئے اور اس کے اختیار نہ دیئے گئے کام کو تو ہرگز ہرگز کر ہی نہیں سکتا ۔ اب تیری مرضی ہے تو وہ کر جس کے کرنے کا تجھے اس نے حکم دیا اور تیری مرضی ہے کہ تو اس کو کر جس کے نہ کرنے کا اس نے تجھے حکم دیا ہے ایک میں تیرا فائدہ ہے اور دوسرے میں تیرا نقصان ۔ مختصر یہ کہ زیر نظر میں ارشاد فرمایا کہ ” اس واقعہ میں بھی نشانی ہے مگر ان لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں “ کیونکہ اکثر کی طلب کے مطابق نہیں دی گئی ۔ اور اگر اکثر کی طلب کی مطابق دی جاتی تو وہ اس کے بعد کہاں ٹک سکتے تھے ۔
Top