Ruh-ul-Quran - An-Naml : 16
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : بیشک منافق يُخٰدِعُوْنَ : دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَھُوَ : اور وہ خَادِعُھُمْ : انہیں دھوکہ دے گا وَاِذَا : اور جب قَامُوْٓا : کھڑے ہوں اِلَى : طرف (کو) الصَّلٰوةِ : نماز قَامُوْا كُسَالٰى : کھڑے ہوں سستی سے يُرَآءُوْنَ : وہ دکھاتے ہیں النَّاسَ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے اللّٰهَ : اللہ اِلَّا قَلِيْلًا : مگر بہت کم
اور ( حضرت) سلیمان (علیہ السلام) (حضرت) دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور فرمایا، اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی کا علم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا کی گئی ہیں، بیشک یہ نہایت ہی کھلا ہوا فضل ہے
وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ یٰٓـاَیُّھَاالنَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَالْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ (النمل : 16) (اور ( حضرت) سلیمان (علیہ السلام) (حضرت) دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور فرمایا، اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی کا علم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا کی گئی ہیں، بیشک یہ نہایت ہی کھلا ہوا فضل ہے۔ ) آیت میں وراثت کا مفہوم حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت دائو (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو سلیم کا ہم معنی ہے۔ 965 قبل مسیح میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے جانشین ہوئے اور 926 قبل مسیح تک تقریباً چالیس سال تک فرمانروا رہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کی متعدد بیویاں تھی اور ہر ایک سے ان کی اولاد تھی۔ اس آیت کریمہ میں جس وراثت کا ذکر ہورہا ہے اگر اسے مال و جائیداد کی میراث سمجھا جائے اور کہا جائے کہ آپ کے سارے مال و جائیداد کے وارث حضرت سلیمان (علیہ السلام) بنے اور باقی تمام بیٹے اور بیٹیاں محروم کردی جائیں تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے نبی دنیا سے ظلم کو ختم کرنے کے لیے آتے ہیں، رواج دینے کے لیے تو نہیں آتے۔ جن لوگوں نے اس آیت کریمہ سے مال و دولت کی وراثت پر استدلال کیا ہے وہ شاید حضرت دائود (علیہ السلام) کو ظالم ثابت کرنے کی فکر میں ہیں، اللہ تعالیٰ اس سے اپنے پناہ میں رکھے۔ اس لیے بےغبار بات یہ ہے کہ اس وراثت سے مراد مال و جائیداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور خلافت میں حضرت دائود (علیہ السلام) کی جانشینی ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کی عظمت یہ ہے کہ آپ نے جنابِ طالوت کی جانشینی کو نئی نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔ متضاد اور منتشر قبیلوں کو ایک منظم قوم کی شکل دی، ان کے اندر نظم و ضبط پیدا کیا اور عسکری قوت کے ساتھ ساتھ دینی اور روحانی قوت کو ایسا فروغ دیا کہ ایک طرف حکومت مستحکم ہوتی گئی اور دوسری طرف نہایت قابل فخر انسانی معاشرہ وجود میں آیا۔ یہ مختصر سی سلطنت ایک بہت بڑی سلطنت میں تبدیل ہوگئی۔ لوہے کی قوت کو دفاعی قوت میں تبدیل کیا اور بحرقلزم کے ساحل کے آس پاس لوہے کو ڈھالنے کی بڑی بڑی بھٹیاں قائم کیں جن میں دفاعی آلات بھی تیار ہوتے اور ملکی ضرورتوں کا دیگر سامان بھی تیار کیا جاتا۔ آپ نے ملک کو دین کا قلعہ اور قوت کا ایسا سرچشمہ بنادیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اسے آگے بڑھانے میں دشواری پیش نہیں آئی۔ آپ ( علیہ السلام) نے ایک طرف اگر بری فوج میں اضافہ کیا تو دوسری طرف بحری بیڑے کو اتنی ترقی دی کہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور بحری بیڑہ شمار ہونے لگا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مزید ان پر کرم یہ فرمایا کہ انھیں پرندوں کی بولی کا خاص علم عطا کیا۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے ان کی تربیت کرکے انھیں فوج کا ایک حصہ بنادیا جن سے نامہ بری، خبررسانی اور سراغ رسانی کا کام نہایت اعلیٰ پیمانے پر لیا جاتا تھا۔ اس طرح سے انھوں نے گویا اپنی ایک فضائی فوج بھی مرتب کرلی تھی۔ بائیبل میں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کا کوئی ذکر نہیں۔ البتہ بنی اسرائیل کی روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد 11 کے صفحہ 1439 پر اس کی شہادت موجود ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس وقت کی دنیا کا سب سے مضبوط حکمران بنایا اور آپ ( علیہ السلام) پر بَر و بحر کے خزانے کھول دیئے گئے، لیکن ان تمام احسانات، کروفر اور طاقت و اقتدار کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوئے کہ یہ سب کچھ میرے دست وبازو اور میرے حُسنِ تدبیر کا نتیجہ ہے، بلکہ آپ ( علیہ السلام) اپنی قوم کو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پرندوں کی بولیوں کا علم بھی عطا فرمایا ہے اور دیگر بیشمار اسباب و وسائل سے ہمیں ہمکنار کیا ہے۔ تو یہ سب کچھ اس کا کھلا ہوا فضل و کرم ہے۔ ہم تو اس در کے سائل ہیں۔ دو عالم سے غنی صرف وہی ذات ہے، ہماری عظمت اس در کی فقیری میں ہے۔ اور ہماری محرومی اس سے بےنیازی ہے۔ مَنْطِقَ الطَّیْرِ کا علم مَنْطِقَ الطَّیْرِ سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کے اندر بھی نطق و ادراک موجود ہے۔ ہم چونکہ اسے سمجھتے نہیں، اس لیے عام طور پر اس کا انکار کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بات عام انسانوں کے تجربے میں آتی ہے کہحیوانوں اور جانورروں میں بھی نفرت، محبت، عتاب، التفات، خوشی، غم، فکرمندی، طمانیت، استمالت، ملاعبت جیسے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ الگ الگ بولیوں سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور اس اظہار کو جانور تو آپس میں سمجھتے ہی ہیں وہ لوگ بھی سمجھتے ہیں جو جانوروں کی تربیت کرتے اور ان کی آوازوں اور اشارات سے آگاہی پیدا کرلیتے ہیں۔ اور جنھوں نے سائینٹفک طریقے سے ان حیوانات کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے ان کی معلومات تو نہایت حیران کن اور دنگ کردینے والی ہیں۔ چیونٹی اور شہد کی مکھی کے بارے میں کتابیں لکھی گئی ہیں، انھیں پڑھ کر آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کیسی دانش و بینش اور فہم و فراست ودیعت فرمائی ہے۔ آج کتوں سے سراغ رسانی اور جاسوسی کے سلسلے میں جو کام لیے جارہے ہیں ان سے تو ایک دنیا واقف ہے اور کیسی حیرت کی بات ہے کہ کتے ان اسرار تک پہنچ جاتے ہیں جہاں انسان نہیں پہنچ پاتے۔ ایک وقت تھا جب کبوتروں سے نامہ بری کا کام لیا جاتا تھا۔ اور یہ سب کچھ اس حال میں ہوتا تھا کہ کام لینے والے ان کی بولی نہیں سمجھتے تھے اور نہ اپنی بات انھیں سمجھا سکتے تھے۔ اس کے باوجود یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ اور اگر انسان ان کی بولیوں سے واقف ہوجاتا تو یقینا ان کی صلاحیتوں سے ہزار چند کام لیا جاسکتا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی بند خزانے کی کلید عطا فرمائی تھی۔ یقینا آپ ( علیہ السلام) نے اس سے حیرت انگیز کام لیے۔
Top