Ruh-ul-Quran - An-Naml : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ یَعْمَهُوْنَؕ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر زَيَّنَّا لَهُمْ : آراستہ کر دکھائے ہم نے ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فَهُمْ : پس وہ يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے پھرتے ہیں
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنادیا ہے، پس وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ زَیَّـنَّا لَھُمْ اَعْمَالَھُمْ فَھُمْ یَعْمَھُوْنَ ۔ (النمل : 4) (بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنادیا ہے، پس وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ ) ایمان سے انکار کا سبب قرآن کریم کی تعلیمات حددرجہ واضح ہونے کے باوجود جو لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ مخالفت اور معاندت پر تلے ہوئے ہیں ان کے انکار کا سبب پیش نظر آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ وہ سبب یہ ہے کہ وہ لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اسی دنیا کی زندگی کو کل زندگی سمجھے بیٹھے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب آدمی زندگی اور اس کی سعی و عمل کے نتائج کو صرف اسی دنیا پر محدود سمجھے گا اور ایسی کسی عدالت کا قائل نہیں ہوگا جہاں انسان کے پورے کارنامہ حیات کی جانچ پڑتال کرکے اس کے حسن و قبیح کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جانے والا ہو۔ اور جب وہ موت کو زندگی کے خاتمے کی علامت سمجھتا ہو اور کسی ایسی زندگی کا قائل نہ ہو جس میں حیات دنیا کے اعمال کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک جزاء و سزا دی جائے تو لازماً اس کے اندر ایک مادہ پرستانہ نقطہ نظر نشو و نما پائے گا۔ اسے اخلاقی قدریں بےمعنی محسوس ہوں گی۔ انسانیت نام کی چیز اس کے لیے اجنبی ہوجائے گی۔ اس کے نزدیک سب سے بڑی حقیقت نفع و نقصان کا وہ پیمانہ ہوگا جو اس کو لطف و لذت اور راحت و آرام کا سامان مہیا کرسکے۔ اس کے نزدیک مادی ترقی و خوشحالی اور قوت و اقتدار دنیا کی سب سے بڑی حقیقت بن جائے گی۔ اسے ہر وہ عمل اور ہر وہ کوشش کارآمد اور قابل عمل دکھائی دے گی جو اس کی ذات کی سربلندی اور اس کے عیش و عشرت میں اضافے کا باعث ہو۔ زندگی کی روحانی اور معنوی قدریں اس کے نزدیک کمزور لوگوں کے سہارے اور توہمات کے نتائج محسوس ہوں گے۔ چناچہ وہ جیسے جیسے حب دنیا کا اسیر ہوتا جائے گا ویسے ویسے مال و دولت میں اضافے کے لیے کی جانے والی کاوشیں اسے محبوب ہوتی جائیں گی اور وہ انھیں چیزوں کو روشن خیالی اور وقت کی سب سے بڑی آواز قرار دے گا۔ اور ہر وہ شخص جو نیکی اور بھلائی کی بات کرے گا اسے وہ بیوقوف اور احمق سمجھے گا۔ بظاہر وہ نہایت مہذب اور پڑھا لکھا آدمی ہوگا لیکن اسے اپنی ذات اور اپنی عیش و عشرت اس حد تک مرغوب ہوگی کہ اگر اسے دوسروں کے کھنڈرات پر اپنا محل اٹھانا پڑے اور دوسرے کی محرومیوں سے اپنی عیش و عشرت کی شمع جلانی پڑے تو اسے اس میں کوئی تکدر اور اجنبیت کا احساس نہیں ہوگا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو اس آیت مبارکہ میں تزیینِ اعمال کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق انسان کے اپنے اعمال کے نتیجے میں سزا کے طور پر انسان اور معاشرے پر مسلط کی جاتی ہے۔ اور انسان کو لہو کے بیل کی طرح ساری زندگی اسی مطاف میں طواف کرتے ہوئے گزار دیتا ہے۔ دل کے احساسات مرجانے سے معدے کو ایسی وسعت ملتی ہے کہ انسان کی زندگی کا تمام تر سفر ڈائننگ روم سے واش روم تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا، ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
Top