Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ یَعْمَهُوْنَؕ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر زَيَّنَّا لَهُمْ : آراستہ کر دکھائے ہم نے ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فَهُمْ : پس وہ يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے پھرتے ہیں
بلاشبہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال ان کی نظر میں خوشنما کر دکھائے ہیں ، پس وہ بہکے پھرتے ہیں
جو لوگ عقیدہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں : 4۔ مختصر طور پر آپ یوں سمجھیں کہ دنیاکا صلہ نقد ہے اور آخرت کا سارا ادھار اور ظاہر ہے کہ جو شخص دنیا میں رہ رہا ہے اور اس کے حالات کا مشاہدہ کر رہا ہے اگر وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا تو وہ جو کام کرے گا اس کا صلہ نقد بہ نقد چاہے گا اور وہ یقینا ایسا کام دلجمعی سے نہیں کرسکتا جس کا صلہ اس کو اسی وقت مل جانے کی امید نہ ہوگی اور آخرت پر یقین رکھنے والا گویا یہ ایمان رکھتا ہے کہ جو کچھ میں کرتا ہوں اس کا صلہ مجھے اس سے کئی گنا زیادہ کرکے پیش کیا جائے گا اس کا کچھ حصہ اگر اس دنیا میں بھی مل گیا تو خیر ہے ورنہ آخرت میں یقینا ملے گا لہذا وہ اس کام کو بھی ذوق وشوق کے ساتھ سرانجام دے گا جس کے متعلق اس کو یقین ہے کہ اگر آج نہیں آنے والے کل میں مجھے اس کا صلہ ضرور دیا جائے گا گویا اس طرح وہ اس ادھار کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے گا جس کے متعلق اس کا یقین پختہ ہوگا کہ میرا یہ ادھار بالکل محفوظ ہے اور میرے کام اس وقت آئے گا جب نقد بہ نقد کا معاملہ ختم ہوجائے گا اور اس وقت کسی کے پاس لینے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ وہ دارالعمل نہیں ہوگا بلکہ دارالجزاء میں پہنچ جائے گا اور جزاء کس کو ملے گی اسکو جو اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے بنک میں کچھ داخل کرا چکا ہوگا جو اس کو کئی گنا اضافہ کے ساتھ اب واپس دیا جائے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا کو مقصود ومطلوب بنا کر اپنی تمام ذہانت و قابلیت اس کی طلب میں لگا دیتے ہیں وہ خالصتا دنیا کے اعمال ومشاغل کو اس طرح اپنے اوپر مسلط کرلیتے ہیں کہ وہ کبھی ان کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور وہ کوئی ایسا کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جس کا صلہ وہ اس جگہ ملنے پر یقین نہیں رکھتے اور آخرت وآخرت ان کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں تو وہ اس کو کیا اہمیت دیں گے اور کیوں دیں گے ؟
Top