Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 16
قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
قُلْ : فرمادیں لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ : تمہیں ہرگز نفع نہ دے گا الْفِرَارُ : فرار اِنْ : اگر فَرَرْتُمْ : تم بھاگے مِّنَ الْمَوْتِ : موت سے اَوِ : یا الْقَتْلِ : قتل وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا تُمَتَّعُوْنَ : نہ فائدہ دیے جاؤ گے اِلَّا قَلِيْلًا : مگر (صرف) تھوڑا
اے پیغمبر کہہ دیجیے، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو گے تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگا، اس وقت زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں ملے گا
قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَکُمُ الْفِرَارُاِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِلْقَتْلِ وَاِذًالاَّ تُمَتَّعُوْنَ اِلاَّ قَلِیْلاً ۔ (الاحزاب : 16) (اے پیغمبر کہہ دیجیے، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو گے تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگا، اس وقت زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں ملے گا۔ ) ادائے فرض سے پہلے فرار کبھی مفید نہیں ہوتا اگر کوئی شخص دین کی طرف سے عائد ہونے والے فرض کی ادائیگی میں قتل یا کسی اور نقصان کا اندیشہ محسوس کرتا ہے اور وہ اس فرض کی ادائیگی سے بھاگ جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بھاگ رہا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر کہیں جاسکتا ہے۔ کیونکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ خطرات میں گھرے ہوئے آدمی کو بھی مقررہ وقت پر ہی موت آتی ہے، وقت سے پہلے نہیں آتی۔ اور جو شخص اپنی صحت اور حفاظت کے اعتبار سے بالکل محفوظ حالت میں ہے اس کی زندگی میں اضافہ نہیں ہوجاتا، اس کی بھی موت کا جب وقت آئے گا تو ہزاروں حفاظتوں کے باوجود بھی موت کا شکار ہوجائے گا۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میدانِ جنگ بہرحال موت کی جگہ ہے اس میں دشمن کا کوئی حملہ بھی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ اور میرے لیے محفوظ راستہ ایک ہی ہے کہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ اولاً تو اس طرح زندگی میں اضافہ نہیں ہوسکتا اور اگر نظربظاہر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس کی زندگی میں اضافہ ہوگیا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی زندگی سے وہ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پائے گا۔ کیونکہ اس طرح کے لوگوں کی زندگی برکت سے محروم ہوجاتی ہے۔ وہ اس چند روزہ زندگی میں جتنے دن گزارتے ہیں بےبرکت زندگی گزارتے ہیں۔ مقصد سے لاتعلقی اور ادائے فرض سے پہلوتہی بجائے خود ضمیر کا کانٹا بن جاتی ہے۔ ایسا شخص زندہ بھی رہتا ہے تو اسے زندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ ایسی سزا ہے جس سے کبھی رستگاری نہیں ہوتی۔
Top