Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 16
قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
قُلْ : فرمادیں لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ : تمہیں ہرگز نفع نہ دے گا الْفِرَارُ : فرار اِنْ : اگر فَرَرْتُمْ : تم بھاگے مِّنَ الْمَوْتِ : موت سے اَوِ : یا الْقَتْلِ : قتل وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا تُمَتَّعُوْنَ : نہ فائدہ دیے جاؤ گے اِلَّا قَلِيْلًا : مگر (صرف) تھوڑا
کہہ دو اگر تم موت یا قتل سے بھاگو گے تو یہ بھاگنا تمہارے لئے کچھ نافع نہیں ہوگا، تم کو کھانے بلسنے کا تھوڑا ہی موقع ملے گا۔
قل لن ینفعکم الفرو وائن فررتھم من الموت اوا لقتل واذا لاتمتعون الا قلیلا (16)۔ اس آیت میں عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق ’ اوارادبکم رحمتہ ‘ سے پہلے جملہ کا ایک حصہ مخدوف ہے۔ اس حذف کو کھول دیجئے تو پوری بات یوں ہوگی۔ اویمسک رحمتہ ان ارادبکم رحمتہ (یا اس کی رحمت کو روک سکے اگر وہ تم پر رحمت کرنا چاہے) عربی میں حذف کے اس اسلوب کی مثالیں بہت ہیں۔ ’ متقلد اسیفا ورمجا ‘ میں بھی یہی اسلوب ملحوط ہے۔ قرآن میں اس کی جو بلیغ مثالیں ہیں ان کی طرف اس کتاب میں ہم اشارہ کرتے آئے ہیں۔ اردو میں یہ اسلوب موجود نہیں ہے اس وجہ سے ترجمہ میں اس حذف کو ہم نے کھول دیا ہے۔ ’ من دون ‘ مقابل کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ اس کے محل میں اس کی وضاحت ہم کرچکے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا سے جان چراتے ہو تو بتائو کہ اگر خدا تم کو کوئی گزند پہچانا چاہے تو کون ہے جو اس کی پکڑ سے تمہیں بچا سکے، اسی طرح اگر وہ تمہارے دشمنوں کے علی الرغم تم پر اپنی رحمت نازل کرنا چاہے تو کس کی طاقت ہے کہ اس کی رحمت کو روک سکے ؟ رحمت ہو یا نقمت دونوں خدا ہی کے اختیار میں ہے تو خدا سے بھاگنے اور جی چرانے کے کیا معنی ! ’ ولا یجدون لھم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا۔ ‘ یہاں سیاق کا کلام چونکہ تنبیہ کا ہے اس وجہ سے تنبیہ کے پہلوکو خاص طور پر نمایا فرمایا کہ یادر رکھیں کہ اگر خدا کی پکڑ میں آگئے تو اس کے مقابل میں نہ ان کا کوئی کارساز انکا سفارشی بن سکے گا نہ کوئی حامی و مددگار ان کی حمایت کرسکے گا۔ کسی کی مدد و سعی و سفارش کے ذریعہ سے بھی ہوسکتی ہے، جس طرح کی مدد کی توقع مشرکین اپنے معبودوں اور شرکاء و اولیاء سے رکھتے تھے، اور جمعیت و عصبیت کے بل پر بھی ہوسکتی ہے، جس کا غرہ ہر صاحب کو ہوتا ہے، یہاں ان دونوں ہی کی نفر فرمادی۔
Top