Ruh-ul-Quran - At-Taghaabun : 4
یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : جو کچھ آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ : اور زمین میں وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ : اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو وَمَا تُعْلِنُوْنَ : اور جو تم ظاہر کرتے ہو وَاللّٰهُ : اور اللہ تعالیٰ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا ہے بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں کے بھید
وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، اور اللہ سینوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والا ہے
یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَاتُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ م بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۔ (التغابن : 4) (وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، اور اللہ سینوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والا ہے۔ ) منکرینِ قیامت کے ایک اشتباہ کا صفت علم سے ازالہ آخرت کے منکرین کا یہ خیال تھا کہ اولًا تو قیامت کا وقوع ہی محال ہے اور اگر بالفرض قیامت آہی گئی تو یہ بات تو کسی طرح معقول نہیں کہ ہر انسان کے زندگی بھر کے اعمال کا حساب کیا جاسکے۔ چونکہ ہر شخص زندگی میں بیشمار اعمال کا ارتکاب کرتا ہے۔ تو پوری نوع انسان کے ایک ایک شخص کے اعمال کا حساب کس طرح ممکن ہے جبکہ اس کے اعمال کو نہ جانا جاسکتا اور نہ گنا جاسکتا ہے۔ اس مغالطے کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے علم کے بارے میں نہایت غلط فہمی لاحق ہے، تم اس کے علم کو اپنے علم پر قیاس کرتے ہو۔ تم نے آج تک نہ آسمان دیکھے، نہ زمین کی تمام تہیں دیکھیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو تمام آسمانوں کو بھی جانتی ہیں اور زمین کی تمام تفصیلات کو بھی۔ اور اس کے اندر جو کچھ موجود ہے چاہے وہ مخلوقات کی صورت میں ہو یا خزانوں کی صورت میں اس کے علم سے کچھ بھی مخفی نہیں۔ اس کے علم کی وسعت کا حال تو یہ ہے کہ وہ نہ صرف اعمال کو جانتا ہے بلکہ اعمال کے پس پردہ جو محرکات کام کرتے ہیں جو کچھ نیتوں میں مستور ہے۔ اور عمل کرنے والے نے جس عمل کو چھپا کر کیا ہے وہ اسے بھی جانتا ہے۔ اور جو اس نے ظاہراً کیا لیکن بااثر ہونے کی وجہ سے کوئی اس کی گرفت نہیں کرسکا، وہ اسے بھی جانتا ہے۔ ایسے وسیع علم کی حامل ذات کے بارے میں کون یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ اعمال کا حساب نہیں کرسکے گا۔ حالانکہ وہی ایک ذات ہے جس کی عدالت عدل اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ دنیا میں اکثر و بیشتر جرائم چھپے رہ جاتے ہیں، پولیس ان کا کھوج نہیں لگا سکتی۔ اور بعض جرائم شہادت بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے انصاف سے محروم رہتے ہیں۔ اور بعض مجرم ایسے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کے جرائم معلوم ہونے کے باوجود ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے اور اس کے علم کی وسعت کے سامنے ان میں سے کوئی چیز بھی رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔ اسی طرح جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ عدالتیں یہ جاننے سے عاجز رہتی ہیں کہ مجرم کی جرم کرتے ہوئے نیت کیا تھی، اس کے دل کے احساسات کیا تھے، اس کے عزائم کیا تھے، کیا وہ بالفعل اس کا ذمہ دار تھا یا کوئی اس کو استعمال کررہا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت کے سامنے ہر چیز واضح ہوگی۔ کیونکہ پروردگار جو آج اپنی عدالت کا جج ہوگا وہ دلوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے اور ہر چیز کی اصل حقیقت کو جانتا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو آخرت کے وجود کو یقینی بناتی ہے، اور جسے اخلاق کا تقاضا کہا جاسکتا ہے، اور جو انسان کی فطرت کی آواز ہے۔
Top