Anwar-ul-Bayan - At-Taghaabun : 4
یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : جو کچھ آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ : اور زمین میں وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ : اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو وَمَا تُعْلِنُوْنَ : اور جو تم ظاہر کرتے ہو وَاللّٰهُ : اور اللہ تعالیٰ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا ہے بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں کے بھید
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب جانتا ہے اور جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو کھلم کھلا کرتے ہو اس سے بھی آگاہ ہے اور خدا دل کے بھیدوں سے واقف ہے
(64:4) ما تسرون : ما موصولہ۔ تسرون مضارع جمع مذکر حاضر۔ اسرار (افعال) مصدر۔ جو تم پوشیدہ رکھتے ہو، جو تم چھپاتے ہو وما تعلنون۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ تعلنون مضارع جمع مذکر حاضر۔ اعلان (افعال) مصدر۔ اعلان کرنا۔ آشکارا کرنا ، ظاہر کرنا۔ واللہ علیہم بذات الصدور : اللہ مبتداء ، باقی جملہ اس کی خبر۔ یہ جملہ معترضہ تذییلی ہے۔ اور اللہ کی صفات جو اوپر مذکور ہوئیں۔ ان کی تائید میں آیا ہے۔ علیہم، علم سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے (خوب جاننے والا۔ علماء جمع۔ ب حرف جار ہے۔ ذات الصدور۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور۔ متعلق خبر۔ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں :۔ یعلم ماتسرون : یعنی اللہ تمہارے اسرار اور ان خیالات سے واقف ہے جو تمہارے سینوں کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جو چیز معلوم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے خواہ وہ کلی ہو یا جزائی اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔ کیونکہ ہر چیز سے اس کی نسبت (یعنی تخلیقی تعلق و نسبت) ایک جیسی ہے۔ قدرت کا علم سے پہلے ذکر اس لئے کیا کہ کائنات اپنے خالق پر براہ راست دلالت کرتی ہے اور کائنات کا استحکام تخلیقی اور ہر حکمت بناوٹ اللہ کے علم کی دلیل ہے۔ علم کا دوبارہ ذکر در حقیقت مکرر و عید ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی نافرمانی اور خلاف رضا عمل کرتے ہیں۔
Top