Tafseer-e-Mazhari - At-Taghaabun : 4
یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : جو کچھ آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ : اور زمین میں وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ : اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو وَمَا تُعْلِنُوْنَ : اور جو تم ظاہر کرتے ہو وَاللّٰهُ : اور اللہ تعالیٰ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا ہے بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں کے بھید
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب جانتا ہے اور جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو کھلم کھلا کرتے ہو اس سے بھی آگاہ ہے۔ اور خدا دل کے بھیدوں سے واقف ہے
یعلم ما فی السموت ... الصدور . ” وہ اس سے بھی واقف ہے جو زمین اور آسمان میں ہے اور سب چیزوں کو جانتا ہے جو تم پوشیدہ کرتے ہو اور جو اعلانیہ کرتے ہو اور وہ دلوں تک کی بات کو جاننے والا ہے۔ “ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ : یعنی اللہ تمہارے اسرار اور ان خیالات سے واقف ہے جو تمہارے سینوں کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں ‘ جو چیز معلوم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے خواہ وہ کلی ہو یا جزئی 1 ؂ اللہ اس کو جانتا ہے کیونکہ ہر چیز سے اس کی نسبت (یعنی تخلیقی تعلق و نسبت) .......... 1 ؂ حکماء مشائیہ کہتے ہیں کہ واجب الوجود کے علم کا تعلق کلیات سے ہے ‘ جزئیات سے نہیں ہے ‘ وہ جزئیات کو نہیں جانتا اگر جانتا ہے تو من حیث الکلی تشخصات و تعنیات مادیہ کا اسکو علم نہیں ‘ اس خیال کی تردید حضرت مفسر (رح) نے کردی اور صراحت کردی کہ کلی ہو یا جزئی جو بھی معلوم ہونے کی صلاحیت و قابلیت رکھتی ہے ‘ اللہ اس کو جانتا ہے۔ (مترجم) ایک جیسی ہے۔ قدرت کا ذکر علم سے پہلے اس لیے کیا کہ کائنات اپنے خالق پر براہ راست دلالت کرتی ہے اور کائنات کا استحکام تخلیقی اور ہر حکمت بناوٹ اللہ کے علم کی دلیل ہے۔ علم کا دوبارہ ذکر درحقیقت مکرر وعید ہے ‘ ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی نافرمانی کرتے اور خلاف رضا عمل کرتے ہیں۔
Top