Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 176
وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ١ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ١ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہتے لَرَفَعْنٰهُ : اسے بلند کرتے بِهَا : ان کے ذریعہ وَلٰكِنَّهٗٓ : اور لیکن وہ اَخْلَدَ : گرپڑا (مائل ہوگیا) اِلَى الْاَرْضِ : زمین کی طرف وَاتَّبَعَ : اور اس نے پیروی کی هَوٰىهُ : اپنی خواہش فَمَثَلُهٗ : تو اس کا حال كَمَثَلِ : مانند۔ جیسا الْكَلْبِ : کتا اِنْ : اگر تَحْمِلْ : تو لادے عَلَيْهِ : اس پر يَلْهَثْ : وہ ہانپے اَوْ تَتْرُكْهُ : یا اسے چھوڑ دے يَلْهَثْ : ہانپے ذٰلِكَ : یہ مَثَلُ : مثال الْقَوْمِ : لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات فَاقْصُصِ : پس بیان کردو الْقَصَصَ : (قصے) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشوں کا پیرو بنا رہا تو اس کی مثال کتے کی مثال ہے اگر تم اس کو دھتکارو تب بھی زبان لٹکائے رکھتا ہے یا چھوڑ دو تب بھی زبان نکالے رکھتا ہے یہی مثال اس قوم کی ہے جس نے ہماری آیات کی تکذیب کی۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو تاکہ وہ غور کریں۔
اگلی آیت کریمہ میں قریش کو مزید توجہ دلاتے ہوئے فرمایا سَآئَ مَثَلَانِالْقَوْمُ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاوَاَنْفُسِھُمْ کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ ۔ مَنْ یِّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتِدِیْ ج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاْولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ (الاعراف : 178، 177) ” کیا ہی بری تمثیل ہے اس قوم کی جس نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور خود اپنی جانوں پر ظلم کرتی رہی جسے اللہ ہدایت بخشے وہی ہدایت پانے والا بندہ ہے اور جنھیں وہ گمراہ کر دے وہی ہیں جو نامراد ہوتے ہیں “۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی اور مشرکین کے لیے تہدیدو وعید مشرکینِ مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ جس قوم نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر اللہ کی آیات کی تعمیل سے نکل بھاگے اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کی ان کا انجام تم نے دیکھ لیا ہے کہ بالآخر اس زندگی تک پہنچے جس کو کتے کی زندگی کہا جاتا ہے کہ دنیا کی نگاہوں میں اور پروردگار کی نگاہوں میں بھی ذلیل سے ذلیل تر ہوتے گئے بار بار اللہ کے عذاب کے کوڑے برستے رہے اور دنیا کی طاقتور حکومتیں انھیں بار بار ادھیڑتی کھدیڑتی رہیں۔ بالآخر ملک ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا ‘ حکومت چھین گئی ‘ دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے لگے ‘ قومی جمیت تباہ ہوگئی ‘ منتشر حالت میں مختلف ملکوں میں بکھر گئے لیکن کتے کی جو خصلت ان میں پیدا ہوگئی تھی اس میں کبھی کمی نہ آئی تاریخ کے ہر دور میں انھوں نے ہمیشہ دنیا کو اپنا معبود بنایا اور اس کی طلب میں دنیا سے پٹتے بھی رہے لیکن کبھی اپنا رویہ نہ بدلا بالکل کتوں کی طرح ہر وقت ان کی حرص و آز کی زبان لٹکتی رہی۔ مشرکینِ مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ اس قوم کا انجام اور ان کی بری مثال تمہارے سامنے ہے انھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کر کے نہ جانے کیا سمجھا تھا لیکن انجام کار یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنی ہی زندگی برباد کی اور اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت کا رشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے جو اس راستے کی طلب پیدا کرتا ہے اور اس کے لیے فکر مند ہوتا ہے تو اللہ اس کو ہدایت عطا فرماتے ہیں لیکن جو اس سے بےنیاز ہو کر دنیا کا کتا بن جاتا ہے تو پروردگار نہ صرف اس کو ہدایت سے محروم کردیتا ہے بلکہ وہ ہر لحاظ سے دنیا میں نامراد زندگی گزارتا ہے اس آیت میں آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی بھی ہے اور قریش مکہ کے لیے تہدید وو عید بھی۔ آپ ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اگر ہدایت اختیار نہیں کر رہے تو آپ ﷺ ہرگز پریشان نہ ہوں کیونکہ ہدایت تو اسی کو ملتی ہے جو اس کا طلبگار ہوتا ہے اور اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے لیکن جو لوگ اپنی آنکھوں اور اپنے دل و دماغ پر خواہشات کی پٹی باندھ لیتے ہیں اللہ انھیں گمراہی کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور یہی لوگ ہیں جو حقیقت میں نامراد اور بدقسمت ہیں۔ گزشتہ بحث کا خلاصہ گزشتہ آیات میں بیان کردہ ارشادات پر اگر اجتماعی طور پر نظر ڈالی جائے تو جو صورت حال دکھائی دیتی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے انسانی ہدایت کے لیے تخلیق آدم کے ساتھ ہی انسانوں سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا تھا اور پھر اسے ان کے تحت الشعور میں زندہ رکھا اور اس کی یاد دہانی کے لیے مختلف وقتوں میں انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے اور کتابیں نازل ہوتی رہیں جس سے نوع انسانی کو وہ حقیقی علم میسر آتا رہا جس سے وہ اپنی زندگی کے ہر بگاڑ کو درست کرسکتے تھے اور اپنی ہر تاریکی کو نور سے بدل سکتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ تمہاری زندگی کی راہنمائی کے لیے اصل ضرورت تو وہی علم الٰہی ہے جو تمہیں انبیاء اور کتابوں کی معرفت دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یاد رکھو کہ صرف علم راہنمائی کے لیے کافی نہیں تاوقتیکہ اللہ کی توفیق بھی شامل حال نہ ہو تمہیں اگر ایک طرف علم کے حصول کے لیے مخلصانہ کوششیں کرنا ہیں تو ساتھ ہی اپنے اللہ سے ہمیشہ اس کی توفیق بھی مانگنی ہے اگر یہ دونوں باتیں تمہارے اندر جمع ہوں گی تو اللہ تعالیٰ تمہیں نہ صرف راہ راست پر قائم رکھے گا بلکہ تمہاری دنیا بھی سنوارے گا اور آخرت میں بھی کامیابیاں عطا فرمائے گا لیکن اگر تم نے علم الٰہی سے منہ پھیرلیا تو تباہی سے بچنا ممکن نہیں رہے گا اور اگر علم سے تو بہرہ ور ہوگئے لیکن اللہ کی توفیق کے لیے اپنے اندر طلب صادق اور اخلاص پیدا نہ کیا تو یہ علم بجائے تمہیں منزل تک پہنچانے کے تمہاری منزل ہی بدل دے گا اور بجائے اللہ کے راستے کے مسافر بنانے کے تمہیں شیطان کے راستے کا مسافر بنا دے گا اور پھر اسے سمجھانے کے لیے شخصی مثال بھی دی اور قومی بھی تاکہ بات پوری طرح واضح ہوجائے اور ان مثالوں کے آئینے میں پوری طرح یہ بات مجسم شکل میں سامنے لا کر کھڑی کردی گئی کہ دیکھو ہدایت و ضلالت کا اصل سر رشتہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ جس میں ان دونوں صفات کو موجود پاتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے اور جس میں دونوں صفات یا دونوں میں سے ایک صفت کو مفقود پاتا ہے تو اس کو گمراہ کردیتا ہے یعنی اس کو گمراہی کے راستے پر چلنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اب اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو ایک مزید پیرائے میں بعض ضمنی سوالات کے ازالے کے ساتھ ساتھ واضح فرمایا گیا ہے۔
Top