Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 202
وَ اِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ
وَاِخْوَانُهُمْ : اور ان کے بھائی يَمُدُّوْنَهُمْ : وہ انہیں کھینچتے ہیں فِي : میں الْغَيِّ : گمراہی ثُمَّ : پھر لَا يُقْصِرُوْنَ : وہ کمی نہیں کرتے
اور جو ان ناخدا ترسوں کے بھائی ہیں وہ ان کو گمراہی میں بڑھاتے ہیں پھر کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
چناچہ اسی حوالے سے ارشاد فرمایا جارہا ہے : وَاِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ (الاعراف : 202) اور جو ان ناخدا ترسوں کے بھائی ہیں وہ ان کو گمراہی میں بڑھاتے ہیں پھر کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اس آیت کریمہ میں اخوانھم کی ضمیر کا مرجع شیطان بھی ہوسکتے ہیں اور وہ جاہلین بھی جن کا گزشتہ آیت میں ذکر ہے۔ مراد یہ ہے کہ جنوں میں سے شیاطین ہوں یا انسانوں میں سے جو لوگ ان کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق رکھتے ہیں وہ جن سے فکری اکتساب کرتے ہیں یا ان کی مجالس میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے تہذیبی اثرات قبول کرتے ہیں یا ان کے ہم خیال ہونے کے باعث ژولیدہ فکری پیدا کرنے میں ان کی ہم نوائی کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ جن شیاطین سے ان کا تعلق ہے وہ ان سے اپنے ڈھب سے کام لینے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے وہ ہر ممکن طریقے سے انھیں دینی قوتوں کو بدنام کرنے، دینی اعتقادات کے بارے میں بدگمانیاں پھیلانے، مسلمان نوجوانوں میں فکری انتشار پیدا کرنے اور اسلامی تہذیب سے برگشتہ کرنے کے لیے مسلسل استعمال کرتے ہیں کبھی تو باقاعدہ انھیں معاوضہ دے کر یہ کام لیا جاتا ہے اور کبھی ان کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر ان سے یہ خدمت لی جاتی ہے۔ روشن خیالی کے نام سے انھیں برائیوں کی تاریکی پھیلانے میں لگایا جاتا ہے، فکری آزادی کے حوالے سے ان کے ذریعے نفس کی بندگی یا استعمار کی غلامی یا تہذیبی خودسپردگی کو عام کرنے کے لیے ان کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں وہ بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تعلیم کی نشرواشاعت میں بعض قوتوں کا ساتھ دے کر ملک کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کررہے ہیں لیکن انھیں کبھی یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہم سے اصلاً تعلیم کے ذریعے سے مسلمان نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور بگاڑنے کا کام لیا جارہا ہے کیونکہ پورے مشرق وسطیٰ اور برصغیر میں جہاں جہاں بھی استعماری قوتوں نے اپنی حکومتیں قائم کیں وہاں انھوں نے تعلیم ہی کے واسطے سے بالخصوص مسلمانوں کو ان کے مذہب، تہذیب اور ان کی ثقافت سے برگشتہ کرنے میں کامیابی حاصل کی کیونکہ انسانی اعمال کا دارومدار انسانی فکر پر ہے اور فکر ہمیشہ تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک بچے کو ابتدائی تعلیم سے جب ایک خاص ڈھب پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ صاف دماغ ہونے کی وجہ سے اس کوشش کے مطابق پروان چڑھتا ہے اور جب وہ تعلیم مکمل کرکے تعلیمی اداروں سے نکلتا ہے تو وہ بالکل ویسا انسان ہوتا ہے جیسا تعلیم دینے والوں نے اسے بنانے کی کوشش کی ہو، وہ اپنے مذہب کا نام بھی لیتا ہے لیکن مذہب اس کی زندگی میں باقی نہیں رہتا۔ لارڈ میکالے نے یہی بات برطانوی پارلیمنٹ سے کہی تھی کہ تعلیم کے ذریعے سے ہم جن لوگوں کو تیار کررہے ہیں وہ نام کے مسلمان ہوں گے لیکن حقیقت میں مسلمان نہیں ہوں گے۔ تعلیم سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے لوگوں کو بگاڑا جاسکتا ہے اور سنوارا بھی جاسکتا ہے اسی لیے اقبال نے کہا تھا ؎ تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر انسانی قوتیں اسی تعلیم کے مقدس نام سے مسلمانوں کو بگاڑنے کا کام لیتی ہیں اور خود مسلمان اسے ایک عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم جہالت دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ جہالت دور کرنے کے ساتھ ساتھ ہم دین اور دین کے تمام متعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح تفریح کے نام پر شیطانی قوتوں نے خود کو مسلمانوں ہی سے شرم وحیاء کو ختم کرنے کا جو کام لیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے جو لوگ اس کام کے رسیا ہوجاتے ہیں ان کی نفسانیت اس طرح ان کے ایمان بلکہ عقل پر بھی غالب آجاتی ہے کہ صرف تفریح ان کا مقصد بن جاتی ہے، چاہے اس کے نتیجہ میں شرم وحیاء کا جنازہ نکل جائے۔ انہی مثالوں پر قیاس کرکے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ شیطانی قوتوں نے تعلیم، تفریح، ذریعہ ابلاغ، سیاست، فنونِ لطیفہ، آرٹ، ادب لٹریچر حتی کہ دین کو بھی اپنے مقاصد کے لیے اس طرح استعمال کیا ہے کہ مسلمان سادگی سے اسے نیکی سمجھتے رہے اور انھوں نے نہایت دانش مندی سے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ان کا اور مسلمانوں کا معاملہ کچھ ایسا ہی رہا ہے ؎ بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ جناتی قوتیں تو خیر چھپ کر کام کرتی ہی ہیں انسانی شیاطین بھی اس طرح پس پردہ رہ کر اور پاکیزہ اصطلاحات کی آڑ میں مسلمانوں کو بگاڑنے کے لیے کوششیں انجام دیتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں کھیلنے والوں کو کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم جن کاموں کو جائز اور نیک سمجھ کر کررہے ہیں یہ تو ہم اصلاً شیاطین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے ادب اور سیاست میں استعماری قوتوں نے جس طرح ففتھ کلام تیار کیے اور پھر ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا وہ ایک ایسی کہانی ہے جو تاریخ پر گہری نظر رکھنے والا ہر شخص بڑی آسانی سے دیکھ سکتا ہے اور قومی بیداری اور اصلاح کے نام پر جس طرح کچھ لوگوں کو دینی مسلمات میں اختلافات پیدا کرنے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے وہ بھی ایک تکلیف دہ داستان ہے جس کے نتائج آج امت مسلمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ جس طرح اللہ کی پناہ طلب کرنے والے اور ہر ناگفتہ بہ صورتحال میں محض اللہ کی توفیق سے کام کرنے والوں نے خدمات انجام دی ہیں اسی طرح شیطانی قوتوں نے اپنے ایجنٹوں اور گماشتوں سے اس طرح کام لیا ہے کہ کبھی اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں ہونے دی۔ اس لیے اللہ کے راستے میں کام کرنے والوں کی ہمیشہ دونوں باتوں پر توجہ رہنی چاہیے ایک تو اپنے آپ کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہمارے کام میں کہیں نفسانیت کا شائبہ تو نہیں اور دوسرے ان شیطانی عناصر پر گہری نگاہ رہنی چاہیے جو اپنے کام میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے اور ان کی کوششیں مسلمانوں کو بگاڑنے میں کبھی کمزوری نہیں دکھاتیں۔ گزشتہ آیات میں آپ نے دیکھا کہ سارا زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ شیطانی قوتیں حق کی مخالفت میں جو بھی کریں داعیانِ حق کو کبھی ان نصیحتوں کو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے جو گزشتہ آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ اب اگلی آیت کریمہ میں دونوں باتوں کی مثال دی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حق کی مخالف قوتیں کس طرح داعی حق کو قلبی اور ذہنی اذیتیں پہنچاتی ہیں لیکن اس کے مقابلے میں داعی حق کا طرز عمل کیا ہوتا ہے چونکہ آنحضرت ﷺ مسلمانوں کے لیے اسوہ کاملہ ہیں اس لیے یہ مثال آپ ہی کے حوالے سے دی جارہی ہے۔
Top