Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 202
وَ اِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ
وَاِخْوَانُهُمْ : اور ان کے بھائی يَمُدُّوْنَهُمْ : وہ انہیں کھینچتے ہیں فِي : میں الْغَيِّ : گمراہی ثُمَّ : پھر لَا يُقْصِرُوْنَ : وہ کمی نہیں کرتے
اور ان کے بھائی 1 ؎ تو ان کو گمراہی میں گھسیٹے لئے جا رہے ہیں پھر کمی نہیں کرتے
1 ؎ شیاطین ترکیب : اخوانہم مبتداء یمدونہم جملہ خبر واذ الم الخ شرط قالو الخ جواب لولا ہلا اجتبیتہا انشاء تہامن قبل نفسک ذلک مقولتھم ماموصولہ یوحی الی جملہ صلہ مجموعہ مفعول ہے اتبع کا۔ من ربی یوحی سے متعلق ھذا مبتداء بصائر موصوف من ربکم صفت مجموعہ خبر وھدی ورحمۃ خبر پر معطوف لقوم رحمۃ سے متعلق البصائر جمع بصیرۃ وہی لحجوالبراہین۔ تفسیر : غضب کی حالت میں پرہیزگاروں کی یہ حالت بیان کی تھی کہ جب وہ خدا تعالیٰ کو یا اس کے صفات قاہرہ کو یاد کرتے ہیں تو اس کی تاریکی جسمانیت سے باہر آکر دفعۃً بینا ہوجاتے ہیں یعنی یکایک آنکھیں سی کھل جاتی ہیں۔ خلاف شیاطین کے بھائیوں کے یعنی غیر خدا پرست لوگوں کے کہ غصہ اور غضب کی کیا خصوصیت ہے۔ وہ جس بری بات میں پڑتے ہیں تو ان کے بھائی شیاطین خواہ جن ہوں خواہ انس ان کو سرکشی میں اور بھی بڑھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پھر کمی نہیں کرتے۔ یہ بات نہیں کہ اگر بشریت سے کوئی خطا یا گناہ سرزد ہوگیا تو اس کا تدارک کریں۔ استغفار کریں ٗ نادم ہوں۔ خدا تعالیٰ کو یاد کریں بلکہ اس میں اصرار اور غلو کرتے کرتے حد کو پہنچا دیتے ہیں اور ان کے مددگار وسوسہ دلانے والے بھائی انسان یا جن ان کو ابھارتے ابھارتے اس حد تک پہنچا دیتے ہیں کہ رسول کے مقابلہ پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور بعض کج بحثی کی نظر سے طرح طرح کے معجزات طلب کرنے لگتے ہیں اور جب ان کی خواہش کے موافق رسول وہ معجزہ نہیں دکھاتا تو کہتے ہیں لولا اجتبیتہا کہ تو ازخود کیوں نہیں بنا لایا یا تو نے خدا سے اس کی درخواست کیوں نہ کی کیونکہ تو کہتا ہے کہ وہ میری دعاقبول کیا کرتا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ اے نبی تو ان سے کہہ دے میں تو صرف وحی الٰہی کا اتباع کرتا ہوں ٗ اپنی طرف سے کوئی درخواست نہیں کرسکتا۔ ہر امر میں جہاں ضرورت پڑتی ہے وحی کا منتظر رہتا ہوں نہ مجھے کچھ اس کی ضرورت ہے کہ تمہاری خواہشوں کی پیروی کروں۔ قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ہے کہ جس کے برابر کوئی معجزہ نہیں۔ جب تم اس کو نہیں مانتے تو پھر اور کس معجزہ کے قائل ہو گے ؟ اور یہ قرآن تمہارے رب کی طرف سے بصائر یعنی بینائی ہے اور ہدایت اور رحمت۔ قرآن مجید کی مدح میں تین لفظ وارد ہوئے ہیں۔ بصائر کیونکہ قرآن کی وجہ سے توحید اور نبوت اور معاد کا حال معلوم ہوجاتا ہے اور انبیائِ گذشتہ اور ان کے مطیع اور نافرمانوں کا حال بھی آئینہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس کو بصائر کہا۔ تسمیۃ السبب باسم المسبب۔ دوم ہدایت معارف توحید و نبوت و معاد میں لوگوں کی دو قسم ہیں۔ ایک وہ ہیں جو ان چیزوں کا گویا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کو اصحاب عین الیقین کہتے ہیں۔ دوم وہ جو ایسے نہیں بلکہ مستدل ہیں جن کو اصحاب علم الیقین کہتے ہیں۔ سو اول قسم کے لئے قرآن بصائر ہے اور دوم کے لئے ہدایت اور عامۃ المومنین کے لئے رحمت اور چونکہ تینوں فریق مومنین میں سے تھے اس لئے لقوم یؤمنون فرمایا۔
Top