Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 202
وَ اِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ
وَاِخْوَانُهُمْ : اور ان کے بھائی يَمُدُّوْنَهُمْ : وہ انہیں کھینچتے ہیں فِي : میں الْغَيِّ : گمراہی ثُمَّ : پھر لَا يُقْصِرُوْنَ : وہ کمی نہیں کرتے
اور جو شیطانوں کے بھائی ہیں وہ ان کو کھینچتے چلے جاتے ہیں گمراہی میں پھر وہ کمی نہیں کرتے5
5 پہلے تو تنہا حضور ﷺ کو خطاب تھا گو حکم استعاذہ میں سب شامل تھے اب عام متقین (خدا ترس پرہیزگاروں) کا حال بیان فرماتے ہیں یعنی عام متقین کے حق میں یہ محال نہیں کہ شیطان کا گزر ان کی طرف ہو، اور کوئی چرکہ لگا جائے۔ البتہ متقین کی شان یہ ہوتی ہے کہ شیطان کے اغواء سے ممتد غفلت میں نہیں پڑتے بلکہ ذرا غفلت ہوئی اور خدا کو یاد کر کے چونک پڑے ٹھوکر لگی اور معًا سنبھل گئے، سنبھلتے ہی آنکھیں کھل گئیں، غفلت کا پردہ اٹھ گیا۔ نیکی، بدی کا انجام سامنے نظر آنے لگا اور بہت جلد نازیبا کام سے رک گئے۔ باقی غیر متقین (جن کے دل میں خدا کا ڈر نہ ہو، اور جنہیں شیطان کی برادری کہنا چاہیے) ان کا حال یہ ہے کہ شیاطین ہمیشہ انہیں گمراہی میں کھینچتے چلے جاتے ہیں اور رگیدنے میں ذرا کمی نہیں کرتے۔ ادھر یہ لوگ ان کی اقتداء و پیروی میں کوتاہی نہیں کرتے۔ اور اس طرح ان شیاطین کے غرور و سرکشی کو اور زیادہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ بہرحال متقی کی شان یہ ہے کہ جب شیطان دق کرے، فوراً خدا سے پناہ مانگے دیر نہ کرے۔ ورنہ غفلت میں تمادی ہو کر رجوع الی اللہ کی توفیق بھی نہ رہے گی۔
Top