Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 30
فَرِیْقًا هَدٰى وَ فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْهِمُ الضَّلٰلَةُ١ؕ اِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ
فَرِيْقًا : ایک فریق هَدٰي : اس نے ہدایت دی وَفَرِيْقًا : اور ایک فریق حَقَّ : ثابت ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الضَّلٰلَةُ : گمراہی اِنَّهُمُ : بیشک وہ اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) اَوْلِيَآءَ : رفیق مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَيَحْسَبُوْنَ : اور گمان کرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ بیشک مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت پر ہیں
ایک گروہ کو اس نے ہدایت عطا فرمائی اور ایک گروہ پر گمراہی مسلط ہوچکی انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا رفیق بنایا اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔
فَرِیْقًا ہَدٰی وَ فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلٰلَۃُ ط اِنَّھُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُّھْتَدُوْنَ ۔ (الاعراف : 30) ” ایک گروہ کو اس نے ہدایت عطا فرمائی اور ایک گروہ پر گمراہی مسلط ہوچکی انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا رفیق بنایا اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں “۔ شیطان سے اثر قبول کرنے والے پیغمبر کی دعوت سے بھی اثر قبول نہیں کرتے بجائے اس کے کہ مشرکین مکہ جنھیں براہ راست آنحضرت ﷺ اللہ کی طرف سے ہدایت پہنچا رہے ہیں اور اپنی پوری شخصی توانائیوں سے کام لے کر انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ آگے بڑھ کر ہدایت قبول کرتے اور اپنی زندگی کو صحیح نہج پر استوار کرلیتے لیکن حال یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ نے تو یقینا آگے بڑھ کر اس دعوت کو قبول کیا اور اپنی زندگی سنوار لی اور دوسرا گروہ مسلسل اپنی روش پر قائم رہا بلکہ بجائے اپنی گمراہیوں پر توجہ کرنے کے آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس شمع ہدایت کو گل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ پھر گمراہی اللہ کی جانب سے ان پر مسلط ہوگئی کیونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جب بھی کوئی فرد یا کوئی قوم بجائے اللہ کے نبی کی دعوت کو قبول کرنے کے شیاطین کو اپنا ہمدرد ‘ اپنا ساتھی اور اپنا راہنما مان لیتی ہے اور پھر زندگی کے سفر میں اسی کی راہنمائی میں سفر جاری رکھنا چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم کی گمراہی کا فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ ان مشرکینِ مکہ نے بھی چونکہ اسی طرح اپنی زندگی کے سفر کو جاری رکھا ہے اور بجائے حضور کی بات کو ماننے کے شیاطین کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی روش یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ اپنی اس گمراہی کو سمجھنے سے بھی معذور ہوگئے ہیں اور یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ حقیقت میں وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی انسان یا کوئی گروہ اس حد تک اندھے پن کا شکار ہوجائے کہ اسے اندھیرے اور اجالے میں تمیز بھی نہ ہو سکے اور وہ صحیح اور غلط کو پہچاننے سے بالکل عاجز ہوجائے تو پھر ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کبھی زبردستی ہدایت نہیں دیتا جس طرح ایک آدمی اگر مسلسل بیٹھا رہے اور کبھی اٹھنے کی زحمت گوارا نہ کرے تو ایک وقت آئے گا کہ وہ اپاہج ہوجائے گا اس طرح جو شخص اللہ کے دیئے ہوئے جوہر عقل سے کام نہیں لیتا اور اپنے فہم و شعور کو معطل کر کے رکھ دیتا ہے اور جو لوگ اس کو صحیح راستے کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ ان کو اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے تو ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کے فہم و شعور کی طاقتیں اس سے سلب کرلیتا ہے اور پھر وہ ظاہری آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دل کے نور سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا ؎ دل کا نور کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں مشرکین مکہ کی بدعات اور خرافات پر تنقید فرماتے ہوئے ان کی کوتاہیوں اور برائیوں کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا صحیح راستہ بھی ان کے سامنے کھولا گیا اس کی بنیادیں بھی ان کے سامنے واشگاف کی گئیں اور پھر نہایت تأسف سے جن لوگوں نے ان ہدایات سے فائدہ نہیں اٹھایا ان کے حوالے سے اللہ کے قانون کو ذکر کیا گیا۔ اب اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں مثبت انداز میں اس بات کا حکم دیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے افراط وتفریط سے کام لیتے ہوئے ایک پوری مصنوعی شریعت تصنیف کر ڈالی تھی۔
Top