Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 16
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کے راستے میں تو ڈھے جاتے ہو زمین کی طرف کیا تم ریجھ گئے ہو دنیا کی زندگی پر آخرت کے مقابلے میں سو نہیں ہے دنیا کی زندگی کا سروسامان آخرت کے مقابلے میں مگر قلیل۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ ط اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِج فَمَا مَتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّاقَلِیْلٌ (التوبۃ : 38 ) (اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کے راستے میں تو ڈھے جاتے ہو زمین کی طرف کیا تم ریجھ گئے ہو دنیا کی زندگی پر آخرت کے مقابلے میں سو نہیں ہے دنیا کی زندگی کا سروسامان آخرت کے مقابلے میں مگر قلیل۔ ) اس آیت کریمہ سے وہ خطبہ شروع ہورہا ہے جو غزوہ تبوک کی تیاری کے دنوں میں آپ پر نازل ہوا ہے۔ اس خطبے کی یہ پہلی آیت ہے اور پھر یہ مضمون مسلسل دور تک چلا گیا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم غزوہ تبوک کا پس منظر جاننے کی کوشش کریں۔ غزوہ تبوک کا پس منظر آنحضرت ﷺ یوں تو پوری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ لیکن آپ کی براہ راست بعثت جزیرہ عرب کے رہنے والوں کی طرف تھی کیونکہ وہ لوگ کئی رشتوں میں آپ سے منسلک تھے۔ مزید یہ کہ آپ کی اور ان کی زبان ایک تھی، رسم و رواج یکساں تھے، ماحول ایک تھا، چناچہ آپ نے تقریباً تیرہ ’ 13‘ سال تک مکہ معظمہ میں دعوت و تبلیغ کا کام کیا۔ لیکن جب مکہ کی سرزمین نے آپ کو مزید برداشت کرنے سے انکار کردیاتو آپ مدینہ منورہ ہجرت کرگئے۔ وہاں چھ سال کی مسلسل محنت کے نتیجے میں ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی جس پر اللہ کے دین کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے اعتماد کیا جاسکتا تھا۔ چھ ہجری میں معاہدہ حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو موقع ملا کہ وہ اللہ کے دین کی نشرواشاعت اور اس کے نفوذ کے لیے دوسرے قبائل اور دوسرے علاقوں میں بھی کام کریں۔ اب تک قریش کی دشمنی نے مسلمانوں کے سامنے تمام راستے بند کر رکھے تھے۔ مدینہ کے گردوپیش بلکہ جزیرہ عرب میں پھیلے ہوئے قبائل کا مذہبی رشتہ تو قریش سے تھا ہی، قریش کے سیاسی اثرات بھی ان پر پوری طرح حاوی تھے۔ ان کے لیے آزادانہ مسلمانوں سے تعلق رکھنا اور مسلمانوں کا تبلیغ و دعوت کے لیے بےخطر ان کے قبائل میں جانا ممکن نہ تھا۔ معاہدہ حدیبیہ نے جب ایسی تمام پابندیوں کو ختم کردیا تو آنحضرت ﷺ نے بیرونِ عرب ریاستوں کے حکمرانوں اور سلاطینِ عالم کے نام خطوط لکھے اور بعض علاقوں میں اسلامی دعوت کے لیے اپنے وفود بھیجے۔ عرب کے شمال میں سرحدشام سے متصل جو قبائل آباد تھے یہ زیادہ تر عیسائی اور رومی سلطنت کے زیر اثر تھے۔ آنحضرت ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دینے کے لیے پندرہ آدمیوں پر مشتمل ایک وفد بھیجا جن کے رئیس کعب بن عمیر غفاری ( رض) تھے۔ یہ وفد ” ذات الطلح “ کے مقام پر پہنچاتو ان لوگوں نے انھیں قتل کردیا صرف ان کے رئیس کعب بن عمیر غفاری ( رض) بچ کر واپس آئے۔ بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ ان لوگوں نے خود نبی کریم ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ ہمارے علاقے میں مبلغین بھیجیں۔ چناچہ آپ نے ان کی دعوت پر پندرہ صحابہ کو بھیجا اور انہوں نے نقض عہد اور امان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوائے رئیسِ وفد کے تمام وفد قتل کر ڈالا۔ انہی دنوں میں آنحضرت ﷺ نے بصرہ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا پیغام بھیجا اس بدبخت نے نہ صرف کہ دعوت قبول نہ کی بلکہ آنحضرت ﷺ کے قاصد کو قتل کردیا۔ پوری دنیا میں قاصد کے قتل کو ہمیشہ اعلان ِ جنگ کے برابر سمجھا جاتارہا ہے۔ تاتاریوں اور خوارزم شاہ میں جنگ کا آغاز اسی لیے ہوا تھا کہ چنگیز خان کے قاصد کو قتل کردیا گیا تھا اور بھی دنیا کے بڑے بڑے معرکے اسی سبب سے ہوچکے ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان شہداء کا انتقام لینے کے لیے تین ہزار کی جمعیت حضرت زید بن حارثہ ( رض) کی قیادت میں روانہ فرمائی۔ مقصود یہ تھا یہ علاقہ مسلمانوں کی تبلیغ و دعوت کے لیے محفوظ ہوجائے اور مبلغین آزادانہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکیں اور اس علاقے کے لوگ اور حکمران مسلمانوں کو لاوارث سمجھ کر حملے کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ لیکن مسلمانوں کا یہ لشکر جب معان کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ شرحبیل ایک لاکھ فوج لے کر مقابلہ کے لیے آرہا ہے اور چونکہ یہ رئیس عیسائی تھا اور براہ راست قیصر روم کے احکام کے تابع تھا اس لیے قیصر نے اس کی مدد کے لیے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی اور خود حمص کے مقام پر موجود رہ کر حالات کا جائزہ لینے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ مسلمان کوئی بڑی فوج لے کر اس علاقے کو تاراج کرنے کے لیے آئے ہوں گے۔ لیکن جب اسے مسلمانوں کی تعداد کا علم ہوا تو وہ حمص میں رک کر نتائج کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے لیے یہ بات عجیب تھی کہ تین ہزار کی تعداد میں مٹھی بھر لوگ ایک ایسی سلطنت سے حالات بگاڑ رہے ہیں۔ جس کی فوجوں کی تعداد اور وسائلِ جنگ کی کوئی انتہا نہیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب صحیح حالات کا علم ہوا تو اپنی تعداد کی انتہائی کمی کی وجہ سے انھیں آگے بڑھنے میں تأمل ہوا۔ ذمہ دار لوگ سر جوڑ کر بیٹھے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ بعض اصحاب الرائے نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی جائے اور آپ سے کمک بھیجنے کی درخواست کی جائے لیکن حضرت عبداللہ ابن رواحہ نے کھڑے ہو کر ایک مؤثرتقریرکی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ : مسلمانو ! ہم اللہ کے راستے میں نکلے ہیں کوئی کشور کشائی مقصود نہیں۔ ہمارے پیش نظر صرف ایک مقصد ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو یا اس راستے میں ہمارے کندھوں سے سروں کا بوجھ اترجائے اور یہ شہادت ہی وہ آرزو ہے جسے ہم برسوں سے دلوں میں لیے پھرتے ہیں۔ آج جبکہ اس کا موقع سامنے ہے تو پھر پس وپیش کرنے کا کیا معنی ہے ؟ آگے بڑھیں اور کچھ نہیں تو شہادت حاصل کرنے سے توہ میں کوئی نہیں روک سکتا۔ چناچہ یہ فیصلہ ہوجانے کے بعد مسلمان درانہ وار آگے بڑھتے چلے گئے اور موتہ کے مقام پر پہنچ کر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جاٹکرائے۔ اس غیر معمولی اقدام کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین بالکل پس جاتے اور موتہ کی سرزمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہوتی اور ان کی ہڈیاں اس زمین کا رزق بن جاتیں۔ لیکن اللہ کی شان دیکھئے کہ پورا عرب اور تمام مشرق وسطیٰ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کافر تینتیس گنا ہونے کے باوجود مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔ دوروز کی مسلسل جنگ کے بعد شرحبیل کے لشکر نے پسپائی ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور مسلمان بھی جو اس جنگ میں حضرت زید بن حارثہ ( رض) ، حضرت جعفرِ طیار ( رض) ور حضرت عبداللہ ابن رواحہ ( رض) جیسے عظیم جرنیلوں کی شہادت کا نذرانہ پیش کرچکے تھے اور اب حضرت خالد بن ولید ( رض) مسلمانوں کی قیادت کر رہے تھے، نے یہی بہتر سمجھا کہ اگر شامی پیچھے ہٹ رہے ہیں تو ہمیں اسے غنیمت سمجھ کر اپنی فوج کو خیریت سے نکال لینا چاہیے۔ بظاہر تو یہ ایک ایسا برابر کا مقابلہ تھا جس میں کوئی فوج دوسرے پر غالب نہ آسکی۔ لیکن فوجوں کا تناسب دیکھتے ہوئے ہر شخص حیران و ششدر تھا کہ آخر تین ہزار کے لشکر نے ایک لاکھ فوج کو آگے بڑھنے سے کس طرح روک دیا۔ ان علاقوں کے رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم یہ سمجھتے رہے ہیں کہ شامی اور رومی دنیا کی سب سے بڑی قوت ہیں اور قیصر کے مقابلے میں دنیا میں کسی دوسری قوت کو آنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اصل قوت وہ ہے جو مسلمانوں کی صورت میں سر اٹھا رہی ہے، اگر ان کے تین ہزار ایک لاکھ کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس فوج کا ایک ایک سپاہی اپنے اندر کیسے کیسے طوفان سنبھالے ہوئے ہے۔ اگر اس فوج کی کسی بڑی تعداد نے کسی وقت ادھر کا رخ کرلیا تو اس طوفان کا روکنا ناممکن ہوگا۔ چناچہ اسی احساس نے نیم آزاد عربی قبائل اور عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی جو کسریٰ کے زیر اثر تھے اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ استقامت کا ایک نمونہ انہی دنوں ایک اور واقعہ پیش آیا کہ ہرقل کی عرب فوج کا ایک اعلیٰ افسر فروہ بن عمرو جذامی مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ ہرقل نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور اسے کہا کہ یا تو اس نئے دین سے تائب ہو کر اپنا سابقہ مذہب عیسائیت اختیار کرلو ورنہ تمہارا سرقلم کردیا جائے گا۔ اس نے نہایت استقامت کا ثبوت دیتے ہوئے دوبارہ عیسائی ہونے سے انکار کردیا۔ ہرقل نے برہم ہو کر اس کے قتل کا حکم دیا لیکن اس نے ایمان سے دستکش ہونا گوارا نہ کیا اور نہایت خوشی سے اسلام پر جان دے دی۔ حیرانی کی بات ہے کہ جس آدمی نے نبی کریم ﷺ کی زیارت تک نہ کی کسی صحابی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور ایک مختصر عرصہ کسی کی صحبت میں رہ کر دین سیکھا نمازیں پڑھیں لیکن اللہ نے ایسا جذبہ اخلاص عطا فرمایا کہ وہ اسلام پر ہر چیز کو قربان کرگیا۔ ہرقل نے جب یہ صورتحال دیکھی کہ میری فوجوں کا ایک کمانڈر اس دین کو چھوڑ کر جس میں اس کی ساری عمر گزری ایک نیا دین ایک مختصر عرصہ پہلے قبول کرتا ہے اور اس کی محبت اس کے دل میں اس طرح جاگزیں ہوجاتی ہے اور وہ دین اس کے اندر ایک ایسی بےپناہ قوت پیدا کردیتا ہے کہ موت کا خوف بھی اسے لرزہ براندام نہیں کرسکتا۔ تین ہزار کا لشکر ایک لاکھ کی منظم اور مسلح فوج کو دیکھ کر بجائے سراسیمہ ہونے کے درانہ وار آگے بڑھتا ہے اور فوج سے ٹکرا جاتا ہے اور ایک لاکھ فوج اپنی ساری کوششوں کے باوجود اسے شکست نہیں دے سکتی۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ لوگ کیسے ہیں ان کا ایک ایک فرد موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ ان کے نفع و نقصان کے پیمانے بالکل جدا ہیں۔ وہ زندگی زندہ رہنے کو نہیں سمجھتے بلکہ مقصد پر قربان ہوجانے کو سمجھتے ہیں ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز شہادت ہے۔ اس لیے وہ خوف اور ڈر سے بالکل آگاہ نہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوف ان کی چمڑی میں نہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں قربان ہونے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دنیا کی کوئی طاقت عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ یہ تو جدھر نکلیں گے مزاحمت کی ہر دیوار کو گرادیں گے اور کوئی قوت ان کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ آج یہ محدود تعداد میں ہیں لیکن ان کی تبلیغ و دعوت میں جو تاثیر ہے اور ان کے افراد میں جو کردار کی پختگی ہے اگر اسے آگے بڑھنے کا موقعہ مل گیا تو ہماری مملکتیں باقی نہیں رہیں گی۔ اس لیے ہمیں آج ہی فیصلہ کرنا ہے کہ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو پھر ہمیں آگے بڑھ کر اس دین اور دین والوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ چناچہ انہی احساسات نے دوسرے ہی سال قیصر کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا کہ اسلامی حکومت پر حملہ کیا جائے۔ چناچہ اس نے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کردیں اور اس کے ماتحت غسانی اور دوسرے عرب سردار فوجیں اکھٹی کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ کی خداداد بصیرت نے ان خطرات کا اندازہ کرلیا آپ نے ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر نگاہ رکھی تاکہ حالات بےقابو نہ ہونے پائیں۔ چناچہ جیسے ہی آپ کو اطلاع ملی کہ قیصر حملے کی تیاریاں کررہا ہے تو آپ نے فیصلہ کرلیا کہ اس سے پہلے کہ قیصر کی تیاریاں مکمل ہوں اور وہ ایک بڑی فوج لے کر ہم پر حملہ آور ہو ہمیں آگے بڑھ کر اس عظیم طاقت سے ٹکراجانا چاہیے کیونکہ اگر اس موقع پر ذر ابھی کمزوری دکھائی گئی تو نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ عرب کی دم توڑتی ہوئی جاہلیت جس پر حنین میں آخری ضرب لگائی جاچکی ہے پھر جی اٹھے گی۔ مدینہ کے منافقین جن کے روابط ابوعامر کے واسطے سے غسانی بادشاہ سے بھی تھے اور خود قیصر سے بھی۔ انھیں ملک کے اندر ریشہ دوانیوں کو منظم کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔ چناچہ اس سے پہلے کہ ملک کے اندر ایسے حالات پیدا ہوں جس سے قیصر فائدہ اٹھائے آنحضرت ﷺ نے قیصر کی طاقت کو روکنے کا فیصلہ کرلیا اور اعلان فرمادیا کہ ہمیں قیصر کا خطرہ درپیش ہے وہ اسلام اور مسلمانوں پر ایک کاری ضرب لگانا چاہتا ہے۔ ہم اسے کوئی موقعہ دیئے بغیر خود شام پر چڑھائی کریں گے چناچہ مسلمانوں کو اس کی تیاری کا آغاز کردینا چاہیے۔ آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ جب کسی جگہ حملہ کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو کبھی اس کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ بعض دفعہ اسے اخفا میں رکھنے کے لیے دوسری طرف نکلنے والے راستوں کے بارے میں استفسار فرماتے تھے اور جب مدینہ سے لشکر کشی کے ارادے سے نکلتے تو بجائے منزلِ مقصود کی طرف سیدھا راستہ اختیار کرنے کے پھیر کی راہ سے تشریف لے جاتے تھے تا؍کہ یہ اندازہ نہ ہوسکے کہ ہماری منزل کیا ہے۔ اس طرح سے آپ زیادہ سے زیادہ اپنے ارادوں کو مخفی رکھنے میں کامیاب رہتے تھے۔ لیکن اس موقع پر آپ نے کسی طرح کا اخفا نہیں رکھا اور صاف صاف اعلان کردیا کہ روم سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے۔ قافلہ اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بقا کے لیے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ رومیوں سے پنجہ آزمائی کا فیصلہ کیا جاتا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ملک میں قحط سالی تھی۔ گرمی کا موسم تھا، چلچلاتی دھوپ اور جھلس دینے والی لوغضب ڈھارہی تھی۔ ریتیلی زمین تانبے کی طرح تپ رہی تھی۔ قحط سالی سے نکلنے کے لیے نئی فصل پر نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ امید کے بارآور ہونے کا وقت آپہنچا تھا فاقہ زدہ جسم اور بھنچے ہوئے پیٹ انگوروں کے لٹکتے ہوئے خوشوں میں زندگی کی نمود دیکھ رہے تھے۔ ٹھنڈا پانی گھنا سایہ اس بلا کی گرمی میں نکلنے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہورہا تھا۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کا جنگ کے لیے نکلنا وسائلِ جنگ کی فراہمی اور رسد وکمک کا انتظام بجائے خود بہت بڑا امتحان تھا۔ منافقین حالات کی نامساعدت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مہم کو ناکام کرنے کے لیے ہر ممکن تدبیر عمل میں لارہے تھے۔ عام بےدلی پیدا کی جارہی تھی۔ رومی بادشاہت کی ہیبت اور دبدبے کے قصے سنائے جارہے تھے، ان کی بےپناہ فوجی قوتوں کے تذکرے ہورہے تھے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ اللہ کے جس دین کے لیے بائیس سال سے وہ سربکف ہیں آج اس کی قسمت ترازو میں ہے۔ آج کی ذرا سی کمزوری صدیوں کی بدنصیبی بن سکتی ہے اور انسانیت کے بدلتے ہوئے نصیب پھر تاریکی میں ڈوب سکتے ہیں۔ چناچہ اسی احساس کے ساتھ اللہ کے ان عظیم بندوں نے وفاشعاری اور فداکاری کا حق ادا کردیا۔ سروسامان کی فراہمی میں ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت عثمان ( رض) اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف ( رض) جیسے لوگوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ حضرت عمر ( رض) نے اپنی عمربھر کی کمائی کا آدھا حصہ لا کر رکھ دیا۔ حضرت ابوبکر ( رض) نے اپنی ساری پونجی نذر کردی اور ثابت کردیا : پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس غریب صحابہ نے محنت مزدوری کرکے جو کچھ کمایا لاکر حضور کے قدموں میں ڈھیر کردیا عورتوں نے اپنے زیور اتاراتار کر راہ خدا میں پیش کردیئے۔ سرفروش مجاہدین کے لشکرکے لشکرہرطرف سے امڈ امڈ کرآئے۔ وہ بار بار عرض کرتے کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہمای جانیں قربان ہونے کو حاضر ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کی صفوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو جہاد کے لیے نکلنے میں تأمل کررہے تھے۔ صحابہ کرام ( رض) کا ایک تعارف اسی تأمل کی وجہ سے پیش نظر آیات کریمہ میں سرزنش فرمائی گئی ہے۔ پیشتر اس کے کہ ہم ان لوگوں کا تعین کریں مناسب ہوگا اگر اس وقت کے مسلمانوں کا ایک ہلکا سا تجزیہ کرلیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کسی تعلیمی ادارے کے طالب علم نہیں تھے کہ جنھوں نے ایک ہی وقت میں داخلہ لیا ہو اور پھر ایک متعین مدت تک تعلیم و تربیت حاصل کی ہو اور پھر ڈگریاں مل گئی ہوں بلکہ صحابہ کی جماعت تو آنحضرت ﷺ کی دعوت کے نتیجے میں آہستہ آہستہ وجود میں آئی۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو السابقون الاولون کہلاتے ہیں یعنی جو ابتدائی دور میں ایمان لانے والے ہیں۔ پھر ان میں وہ بھی ہیں جو رفتہ رفتہ مختلف وقتوں میں ایمان لائے، مختلف ملکوں کی طرف ہجرت کی، پھر تیرہ سال کے بعد آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے ساتھ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا سفر کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں مہاجرین کہا جاتا ہے پھر مدینہ طیبہ میں رہنے والے اوس و خزرج کے لوگ ہیں جن میں سے کچھ لوگوں نے ہجرت سے پہلے ایمان قبول کرلیا تھا اور کچھ نے بعد میں کیا اور یہ سب لوگ انصار کہلائے کیونکہ انھوں نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی نصرت کی بلکہ تمام آنے والے مہاجرین کو بھی سنبھالا اور ہر طرح سے ان کی مدد کی۔ پھر انہی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو انصار اور مہاجرین دونوں میں سے جنگ بدر اور جنگ احد میں شریک ہوئے اور حدیبیہ کے معاہدے سے پہلے مختلف جنگوں میں انھوں نے اپنے ایمان کا ثبوت دیا۔ چھ ہجری میں حدیبیہ کے معاہدہ سے پہلے حدیبیہ ہی کے مقام پر ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان ( رض) کے خون کا انتقام لینے کے لیے مسلمانوں سے بیعت قصاص لی۔ قرآن کریم میں ان تمام بیعت کرنے والوں کو اصحاب الشجرہ قرار دیا اور ان کی بخشش کا اعلان فرمایا۔ پھر حدیبیہ کے معاہدے کے بعد تیزی سے قبائل میں اسلام پھیلا اور فتح مکہ تک مسلمانوں کی تعداد پہلے سے کئی گنا ہوگئی۔ لیکن ان سب نے جب بھی کوئی نازک وقت آیا اپنے اخلاص کا ثبوت دیا اور مختلف اجر وثواب اور درجات کے حصول میں کامیاب ٹھہرے۔ فتح مکہ کے بعد مکہ کے جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے انھیں طلقاء کہا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والوں کے ہمسر نہیں ہوسکتے۔ اس کے بعد پورے جزیرہ عرب میں اسلام پھیل گیا اور فوج در فوج لوگ مسلمان ہوئے۔ لیکن ان میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے آنحضرت ﷺ کی زیارت بھی نہیں کی اور نہ انھیں اسلام کی تعلیم و تربیت کے حصول کا موقع ملا۔ اس پوری تفصیل کو سامنے رکھیں تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ جنگ تبوک کے موقع پر قرآن کریم جن لوگوں سے مخاطب ہے وہ سارے ایک سطح کے لوگ نہیں ہیں۔ کہنے کو تو ان سب کو صحابہ کہا جاتا ہے لیکن ان سب نے یکساں آنحضرت ﷺ کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل نہیں کی۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں سے جن لوگوں کو آنحضرت ﷺ کی صحبت میسر آگئی اور آپ کے شرف دیدار سے مشرف ہوئے یا آپ کے ساتھ کسی غزوہ میں نکلنے کی سعادت حاصل ہوگئی تو یہ ایک ایسی سعادت ہے کہ بعد والے جس کے حصول کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنے تمام تر شرف اور عظمت کے باوجود تمام صحابہ سرفروشی اور جاں سپاری اور اخلاص وفدائیت میں یکساں نہیں ہوسکتے۔ چناچہ جیسے ہی انھیں جنگ تبوک کے لیے نکلنے کا حکم دیا گیا تو ان میں وہ صحابہ جنھوں نے ایک طویل عرصہ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں گزارا تھا اور انہی کی اکثریت بھی تھی انھوں نے ایک لمحے کے لیے آمادہ سفر ہونے میں توقف نہیں کیا۔ لیکن مخلص صحابہ میں دوسری قسم کے وہ لوگ تھے جو سفر کی صعوبت اور موسم کی شدت کو دیکھتے ہوئے کچھ تردد کا شکار ہوئے لیکن جلد ہی سنبھل گئے اور اپنی طبعی کمزوری پر قابو پالیا۔ اسی سورة میں آگے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اس لیے جہاد پر نہ جاسکے کہ واقعی انھیں صحیح عذر لاحق تھا اور وہ اپنی معذوری کے باعث سفر نہیں کرسکتے تھے۔ چناچہ اسی سورة میں ان کے عذر قبول کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ چوتھی قسم ان لوگوں کی تھی جن کے پاس جہاد پر نہ جانے کا کوئی عذر نہیں تھا لیکن محض کاہلی کے سبب جہاد میں شریک نہ ہوسکے۔ ارادے باندھتے رہے اور توڑتے رہے۔ ان آیات میں سے پہلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے اور ان میں جو لوگ تنبیہ کے بعد بھی نہ جاسکے لیکن انھوں نے اللہ سے معافی چاہی اور آنحضرت ﷺ کے سامنے صاف صاف اپنے جرم کا اقرار کیا آگے چل کر اسی سورة میں ان کی قبولیتِ توبہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ پانچواں طبقہ منافقین پر مشتمل تھا۔ جو اپنے نفاق کی وجہ سے جہاد میں نکلنا نہیں چاہتا تھا اور اس کے لیے عجیب و غریب عذر پیش کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے عذر قبول فرماتے ہوئے ان کو نہ جانے کی اجازت دے دی۔ اس طبقے کا ذکر بھی بہت ساری آیات میں ہوا ہے۔ چھٹا طبقہ ان منافقوں پر مشتمل تھا جو جاسوسی اور شرارت کے لیے مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے اور دورانِ سفر مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا کرتے رہے۔ قرآن کریم نے ان کو بھی ذکر فرمایا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تنبیہ کا انداز ہلکا ہے اور انداز اصلاحی ہے اور نشاندہی اس جرم کی کی جارہی ہے جو بعض دفعہ مخلص لوگوں میں بھی پیدا ہوجاتا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مخاطب وہ مسلمان ہیں جنھیں جانے سے انکار نہیں تھا لیکن وہ کاہلی کا شکار ہوگئے یا دنیا کی محبت ان پر غالب آگئی۔ لیکن جہاں تنبیہ کا لہجہ تیز ہوگیا ہے اور بات عذاب تک پہنچ گئی ہے ایسا لگتا ہے کہ اس سے مراد منافقین ہیں۔ انھیں بتایا جارہا ہے کہ اسلام میں اس رویے کی کوئی گنجائش نہیں تم اگر اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کروگے تو مسلمانوں میں شمولیت تمہارے کسی کام نہیں آئے گی تمہیں بدترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پہلی آیت کریمہ میں ان لوگوں سے خطاب کیا جارہا ہے جنھوں نے سفر جہاد میں نکلنے میں تساہل سے کام لیا۔ ان کی نظر کھجوروں کے لٹکتے ہوئے گچھوں پر رہی۔ لہلہاتی فصل ان کی کمزوری بن گئی، کھجوروں کا گھناسایہ ان کے پائوں کی زنجیر بن گیا، وہ مخلص مسلمان ہوتے ہوئے بھی اخلاص پر عمل نہ کرسکے۔ پھر ان کے اصل مرض کی نشاندہی کی گئی ہے کہ تم میں یہ جو کمزوری پیدا ہوئی ہے کہ جب تمہیں اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کہا جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ پوری آمادگی اور نشاط کے ساتھ اٹھو اور عزم بالجزم کی تصویر بن جاؤ تم بوجھل ہو کر زمین پر ڈھے جاتے ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر ریجھ گئے ہو جبکہ ایک مومن کا حقیقی مطلوب اور اس کی اصل منزل آخرت ہے دنیانھیں۔ دنیا اس کے لیے دارالعمل اور مہلت عمل ہے مطلوب و مقصود نہیں۔ وہ دنیا میں رہتا ضرور ہے مگر دل نہیں لگاتا۔ دل اس کا آخرت میں اٹکا ہوا ہے۔ وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہاں کی ہر چیز ابدی اور لافانی ہے اور یہاں کی ہر چیز عارضی اور فانی ہے۔ دنیا چند سالہ قیام ہے جو ایک دن ختم ہوجائے گا۔ جس زندگی کی مدت ساٹھ ستر سال ہے اس کے لیے تو یہ بیتابیاں ہوں اور جو زندگی لاانتہا ہے اس کے لیے نہ کوئی تڑپ ہو نہ فکر نہ تیاری یہ ایک ایسا حادثہ ہے جس کے نتیجے میں انسان کے اندر کی دنیا تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ مقصد کے شعور سے تہی دامن ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی امنگ باقی نہیں رہتی۔ اس آیت کریمہ میں یہ بتایا جارہا ہے کہ مادی دنیا کی محبت اور فانی زندگی سے عشق اور دنیا اور دولت دنیا کی آخرت پر ترجیح، یہ وہ بیماری ہے جس نے تمہیں راہ جہاد میں نکلنے سے معذور کردیا ہے۔ تمہارے اندر سرفروشی اور جاں نثاری کی قوت باقی نہیں رہی۔ اپنی اس بیماری پر قابو پاؤ یہ بیماری جب بڑھ جاتی ہے تو اسی سے نفاق کا مرض جنم لیتا ہے جو آہستہ آہستہ کفر تک پہنچا دیتا ہے اور اگر خدانخواستہ تم نے اس مرض پر قابو نہ پایا تو پھر اس کا نتیجہ وہ ہوگا جو اگلی آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔
Top