Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 39
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا١ۙ۬ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْئًا١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اِلَّا تَنْفِرُوْا : اگر نہ نکلو گے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے گا عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک وَّ : اور يَسْتَبْدِلْ : بدلہ میں لے آئے گا قَوْمًا : اور قوم غَيْرَكُمْ : تمہارے سوا وَلَا تَضُرُّوْهُ : اور نہ بگاڑ سکو گے اس کا شَيْئًا : کچھ بھی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
اگر تم نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہارے علاوہ ایک دوسری قوم بدل کرلے آئے گا اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکو گے اور الہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا 5 لا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًاط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ( التوبۃ : 39 ) (اگر تم نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہارے علاوہ ایک دوسری قوم بدل کرلے آئے گا اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ) حق و باطل کی آویزش میں حق کا ساتھ ایمان کی دلیل ہے اللہ کے جس قانون کے تحت قوموں کا نظام چل رہا ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کے فیصلے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں کون اپنا فرض ادا کرتا ہے اور کون نہیں۔ جب امت مسلمہ کہلانے والی امت اللہ کے دین کی سربلندی اور ملک وملت کی بقا کے لیے میدانِ جہاد میں شرکت سے پہلو تہی کرتی ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس امت کا اللہ کے دین سے اگر کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف واجبی ہے۔ وہ دین کے لیے کوئی تکلیف اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اس وقت تک اللہ کے دین کے ساتھ مخلص ہے جب تک اسے کسی آزمائش سے گزرنا نہیں پڑتا۔ اور اگر کوئی آزمائش سامنے آتی ہے یا کوئی معرکہ کارزار دعوت دیتا ہے تو وہ لوگ اپنی دنیا بچانے کے لیے دین کی اس دعوت کو مسترد کردیتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسے لوگوں کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہوتی اس کے یہاں تو بندگی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ دین کے ہر تقاضے اور بلاوے پر لبیک کہا جائے اور اگر اس کے لیے میدانِ کارزار میں کودنا پڑے یا جان وتن کے معاملے سے گزرنا پڑے۔ تو وہ اس سے کبھی پہلو تہی نہ کرے کیونکہ ؎ ہر کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ما نیست حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم پسینہ بہا کر اور خون دے کر اللہ سے اپنی وفاداری کو ثابت کرتی رہتی ہے تو اللہ کی تائید ونصرت اس کے ساتھ رہتی ہے اور جب اس قوم کو اپنے مفادات اور اپنی زندگیاں اللہ کے دین سے زیادہ عزیز ہوجاتی ہیں تو پھر اللہ ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور اس کی جگہ کسی دوسری قوم کو اس خدمت کے لیے چن لیتا ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے، جب تک عربوں نے اسلام کی علمبرداری کا فریضہ انجام دیا اور انھوں نے کسی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس طرح مدد فرمائی کہ انھوں نے جس طرف کا رخ کیا زمین ان کے لیے لپیٹ دی گئی۔ وہ چند ہزار بھی ہوئے تو لاکھوں پر غالب آگئے۔ لیکن جب انھوں نے اللہ کے دین سے غداری کی دین کی بجائے دنیا کو اپنا مقصود بنالیا دشمنانِ دین سے تعلقات پیدا کیے اور دین کے مخلصوں کو تختہ دار پر لٹکایا اور جس نے بھی جہاد کا نام لیا اسے اپنا اور وطن کا دشمن گرداناتو اللہ کا قانون حرکت میں آیا تو اس نے عربوں کو مسلمانوں کی سیادت سے محروم کردیا اور ان کی جگہ اس قوم کو اسلام کی علمبرداری کا شرف بخشاجن کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یہ بھی کبھی اسلام کی آغوش میں آسکتے ہیں۔ سقوطِ بغداد کے بعد ہلاکوخان کے پوتے کو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔ پھر ایک نئی خلافت وجود میں آئی جس نے صدیوں تک اسلام کی علمبرداری کا بوجھ اٹھایا۔ اسی کی طرف اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے بعض روایات میں آتا ہے کہ اس آیت کے اترنے کے بعد صحابہ بہت پریشان ہوئے انھوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضور اگر ہماری اولادنے واقعی کمزوری دکھائی تو ان کی جگہ لینے والا کون ہوگا ؟ تو آپ نے سلمان فارسی ( رض) کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ مطلب یہ تھا کہ اگر عرب ہمت ہار دیں گے تو اللہ تعالیٰ اہل عجم کو توفیق دے دے گا۔ چناچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ہم بار بار اس صداقت کے اظہار کو دیکھتے ہیں۔ اندلس میں بنی امیہ نے حکومت قائم کی جب ان کی اولاد نااہل نکلی توا للہ تعالیٰ نے موحدین کو یہ خدمت سپرد کردی۔ مصر میں آزاد لوگوں نے بزدلی اور کمزوری کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے بیبرسنام کے ایک غلام کو مصر میں حکومت قائم کرنے کی توفیق بخشی اور اس نے تاتاریوں کو پہلی شکست دی۔ ہندوستان میں بڑے بڑے خاندان جب ناکام ثابت ہوئے تو اللہ نے ناصرالدین محمود اور شمس الدین التمش جیسے غلاموں سے وہ کام لیا جو آزاد نہ کرسکے۔ ان مثالوں سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اللہ اپنے دین کی سربلندی کے لیے کسی کا محتاج نہیں وہ اپنے دین کی علمبرداری کا کام جس سے چاہتا ہے لے لیتا ہے۔ جو قو میں دین کی علمبرداری سے پہلو تہی کرتی ہیں وہ مٹادی جاتی ہیں، دین باقی رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اپنی بقا کے لیے دین کے محتاج ہیں۔ دین اپنی بقا کے لیے مسلمانوں کا محتاج نہیں۔ مسلمان نااہلی دکھائیں گے تو وہ کافروں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دے گا۔ آج ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس میں بظاہر اسلام کا مستقبل خطرے میں ہے۔ لیکن حقیقت میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں مسلمان خطرے میں ہیں۔ انھیں اگر اپنی زندگی عزیز ہے توا نہیں آگے بڑھ کر اپنی قسمت اسلام کے سپرد کردینی چاہیے۔ اللہ کی قدرت بےپناہ ہے آج کے مسلمان اگر بدل جائیں تو وہ ان کی حالت بدلنے اور انھیں عزت دینے پر قاد رہے اور اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہے بالائی طبقے نے اپنارویہ نہ بدلا اور عوام نے بےحسی نہ چھوڑی تو پھر وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انھیں مٹادے اور کسی دوسری قوم کو ان کی جگہ دے دے۔ اس کی قدرت کے سامنے ان میں سے کوئی چیز بھی بعید نہیں۔
Top