Tafseer-e-Saadi - Maryam : 70
ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِیًّا
ثُمَّ : پھر لَنَحْنُ : البتہ اَعْلَمُ : خوب واقف بِالَّذِيْنَ : ان سے جو هُمْ : وہ اَوْلٰى بِهَا : زیادہ مستحق اس میں صِلِيًّا : داخل ہونا
اور ہم ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو اس میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں۔
(ایٓت 70) اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کی قسم اٹھائی اور وہ سب سے سچی ہستی ہے کہ وہ زندگی بعد موت کا انکار کرنے والوں کو ضرور اکٹھا کرے گا، ان کو اور ان کے شیطانوں کو ایک مقررہ روز جمع کرے گا۔ (ثم لنحضرنھم حول جھنم جثیاً ) یعنی ہولناکیوں کی شدت، زلزلے کی کثرت اور احوال کی خوفناک کی وجہ سے وہ اپنے گھٹنوں کے بل آئیں گے اور بلندو برتر اللہ کے حکم کے منتظر ہوں گے، اس لئے ارشاد فرمایا : (ثم لننزعن من کل شیعۃ ایھم اشد علی الرحمٰن عتیاً ) یعنی ہم ہر گروہ اور ہر فرقے سے ظالموں سے زیادہ سرکش، سب سے بڑا ظالم اور سب سے بڑا کافر ہے۔ پس اس کو عذاب کی طرف ان سب میں مقدم کیا جائے گا، پھر اسی طرح عذاب کی طرف اس کو مقدم کیا جائے گا جو گناہ میں اس سے کم تر ہوگا پھر اسے جو اس سے کم تر ہوگا علی ہذا لاق اس اور وہ اس حال میں ایک دوسرے پر لعنت بھیج رہے ہوں گے۔ ان میں آخری گروہ اولین گروہ سے کہے گا : (ربنا ھولآء اضلونا فاتھم عذاباً ضعفا من النار) (الاعراف :38/8) ” اے ہمارے رب ! یہی لوگ تھے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا پس انہیں جہنم کا دو گنا عذاب دے۔ “ (اور فرمایا : (وقالت اولھم لاخرھم فما کان لکم علینا من فضل) الاعراف :39/8) ” پہلا گروہ آخری گروہ سے کہے گا تمہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت حاصل نہیں۔ “ اور یہ سب کچھ اس کے عدل و حکمت اور اس کے لامحدود علم کے تابع ہے۔ بناء بریں فرمایا : (ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولی بھا صلیاً ) یعنی ہمار اعلم ہر اس شخص کا احاطہ کئے ہوئے ہے جو آگ میں جھونکے جانے کا زیادہ مستحق ہے، ہمیں ان کے بارے میں علم ہے اور ہم ان کے اعمال، ان اعمال کے استحقاق اور ان کے عذاب کی مقدار بھی جانتے ہیں۔
Top