Tafseer-e-Saadi - Al-Hajj : 71
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ مَا لَیْسَ لَهُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ
وَيَعْبُدُوْنَ : اور وہ بندگی کرتے ہیں مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَمْ يُنَزِّلْ : نہیں اتاری اس نے بِهٖ : اس کی سُلْطٰنًا : کوئی سند وَّمَا : اور جو۔ جس لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : ان کے لیے (انہیں) بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کوئی علم وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ نَّصِيْرٍ : کوئی مددگار
اور (یہ لوگ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی اس نے کوئی سند نازل نہیں فرمائی اور نہ انکے پاس اس کی کوئی دلیل ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا
آیت 71 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی حالت کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھا ہے کہ ان کی حالت بدترین حالت ہے۔ ان افعال پر ان کے پاس کوئی سند ہے نہ نہ ان کے پاس کوئی علم ہی ہے۔ یہ تو محض مقلد ہیں یہ سب کچھ انہوں نے اپنے گمراہ آباؤ اجداد سے حاصل کیا ہے۔۔۔. اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان جو کوئی کام کرتا ہے اس کے پاس۔۔۔. فی نفس الامر۔۔۔. کوئی علمی دلیل نہیں ہوتی چناچہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی جو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ایسی براہین قاطعہ نازل فرمائی ہیں جو اس کے فساد و بطلان پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان ظالموں کو، جو حق کے ساتھ عناد رکھتے ہیں، وعید سناتے ہوئے فرمایا : (وما للظلمین من نصیر) ” ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا “ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے عذاب سے بچا سکے۔ کیا یہ لوگ جن کو اپنے موقف کے بطلان کا علم نہیں، یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات اور ہدایت آجائے گی وہ اس کی اتباع کریں گے یا وہ اپنے باطل ہی پر راضی ہیں ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : (واذا تتلی علیھم ایتنا بینت) ” جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری واضح آیات۔ “ وہ جو اللہ تعالیٰ کی جلیل القدر آیات ہیں اور باطل میں سے حق کو واضح کرنے کو مستلزم ہیں۔۔۔. تو یہ ان آیات کی طرف التفات کرتے ہیں نہ ان کو درخور اعتناء سمجھتے ہیں بلکہ اس کے برعکس (تعرف فی وجوہ الذین کفروا المنکر) آپ ان کے چروں کو، ان آیات الٰہی کے ساتھ ان کے بغض و کراہت کی بنا پر، بگڑا ہوا اور ان کو منقبض اور ترش رو دیکھتے ہیں۔ (یکادون یسطون بالذین یتلون علیھم ایتنا) یعنی ان کے شدت بغض اور حق کے ساتھ عناد اور عداوت کی وجہ سے قریب ہے کہ وہ ان آیات کی تلاوت کرنے والے کو قتل کرنے یا مارنے کے لئے اس پر چڑھ دوڑیں۔ پس کفار کی یہ حالت بہت ہی بری حالت اور ان کا شر بہت ہی برا شر ہے مگر ان کی ایک حالت اس سے بھی بدتر ہے جس کی طرف یہ لوٹیں گے، اس لئے فرمایا : (قل افانبئکم بشر من ذلک النار وعدھا اللہ الذین کفروا وبئس المصیر) ” کہہ دیجئے ! کیا میں تمہیں خبر دوں اس سے بھی بدتر چیز کی، وہ آگ ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کیا ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ “ پس اس کا شر بہت طویل اور عریض ہے، اس کے آلام بہت شدید ہیں جو ہمیشہ بڑھتے ہی رہیں گے۔
Top