Tafseer-al-Kitaab - Al-Anfaal : 34
وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَا كَانُوْۤا اَوْلِیَآءَهٗ١ؕ اِنْ اَوْلِیَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور کیا لَهُمْ : ان کے لیے (ان میں) اَلَّا : کہ نہ يُعَذِّبَهُمُ : انہیں عذاب دے اللّٰهُ : اللہ وَهُمْ : جبکہ وہ يَصُدُّوْنَ : روکتے ہیں عَنِ : سے الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَمَا : اور نہیں كَانُوْٓا : وہ ہیں اَوْلِيَآءَهٗ : اس کے متولی اِنْ : نہیں اَوْلِيَآؤُهٗٓ : اس کے متولی اِلَّا : مگر (صرف) الْمُتَّقُوْنَ : متقی (جمع) وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور (اب) انکے لئے کونسی وجہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے جبکہ وہ مسجد محترم (میں نماز پڑھنے) سے روکتے ہیں ؟ اور وہ اس مسجد کے متولی بھی نہیں۔ اس کے متولی صرف پرہیزگار ہیں۔ لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
آیت 34 رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرنے والے آپ کے ساتھ جو عناد رکھتے تھے اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (واذا تتلی علیھم ایتنا) ” اور جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں “ جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں (قالوا قد سمعنا لو نشآء لقلنا مثل ھذا ان ھذا الا اساطیر الاولین) ” تو کہتے ہیں اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس جیسی بات کہہ سکتے ہیں، یہ تو صرف پہلوں کی کہانیاں ہیں “ یہ انہوں نے ظلم اور عناد کی بنا پر کہا تھا اور نہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں اور اللہ کے سوا جس کسی کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتے ہیں بلا لیں۔ مگر وہ ایسا نہ کرسکے جس سے ان کی بےبسی ظاہر ہوگئی۔ قائل سے صادر ہونے والا یہ قول مجرد دعویٰ ہے، جس کا جھوٹ ہونا ثابت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ نبی اکرم ﷺ پڑھے ہوئے نہ تھے ‘ آپ لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، گزشتہ قوموں کی تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لئے آپ نے کہیں سفر نہیں کیا تھا، بایں ہمہ آپ نے یہ جلیل القدر کتاب پیش کی جس کے سامنے سے یا پیچھے سے باطل دخل اندازی نہیں کرسکتا، یہ کتاب حکمت والے اور قابل تعریف اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ (واذا قالوا اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک) ” اور جب انہوں نے ہا، اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے “ جس کی طرف محمد مصطفیٰ ﷺ دعوت دیتے ہیں۔ (فامطر علینا حجارۃ من السمآء اوئیتنا بعذاب الیم) ” تو پر برسا دے پتھر آسمان سے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لا۔ “ انہوں نے اپنے باطل پر ڈٹتے ہوئے اور آداب تخاطب سے جہالت کے ساتھ، پورے جزم سے یہ بات کہی تھی۔ اگر انہوں نے۔۔۔ جبکہ وہ اپنے باطل پر ملع سازی کر رہے تھے جو ان کے لئے یقین اور بصیرت کی موجب تھی۔۔۔ اپنے ساتھ مناظرہ کرنے والے اس شخص سے یہ کہا ہوتا جو اس بات کا مدعی ہے کہ حق اس کے ساتھ ہے ” اگر وہ چیز جس کا تم دعویٰ کرتے ہو کہ وہ حق ہے تو ہماری بھی راہنمائی کیجیے “ تو یہ چیز ان کے لئے زیادہ بہتر ہوتی اور ان کے ظلم و تعددی کی زیادہ اچھے طریقے سے پردہ پوشی کرسکتی تھی۔ پس جب سے انہوں نے کہا (اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک) ان کی مجرد اسی بات سے معلوم ہوگیا کہ وہ انتہائی بےوقوف، بےعقل، جاہل اور ظالم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجنے میں جلدی کرتا تو ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا، کیونکہ ان کے اندر رسول ﷺ موجود ہیں اس لئے فرمایا : (وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم) ” اللہ آپ کی موجودگی میں ان کو عذاب نہیں دے گا “ پس رسول اللہ ﷺ کا وجود مبارک ان کے لئے عذاب سے امن کی ضمانت تھی۔ اپنے اس قول کے باوجود، جس کا وہ برسر عام اظہار کرتے تھے، وہ اس قول کی قباحت کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے وہ اس کے وقوع سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کیا کرتے تھے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون) ” اور اللہ ان کو عذبا نہیں دے گا جب کہ وہ معافی مانگنے والے ہوں گے۔ “ یہی وہ مانع تھا جو عذاب کو واقع ہونے سے روک رہا تھا حالانکہ اس کے اسباب منعقد ہوچکے تھے۔ پھر فرمایا : (وما لھم الا یعذبھم اللہ) ” اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے “ یعنی کو نسی چیز ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرسکتی ہے حالانکہ ان کے کرتوت ایسے ہیں جو اس عذاب کو واجب ٹھہراتے ہیں اور وہ ہے ان کا لوگوں کو مسجد حرام میں عبادت سے روکنا، خاص طور پر انہوں نے نبی مصطفیٰ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کو مسجد حرام سے روکا حالانکہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے وہی سب سے زیادہ مستحق تھے۔ بنا بریں فرمایا : (وما کانوآ) ” اور نہیں تھے وہ “ یعنی مشرکین (اولیآء ہ) ” اس کا اختیار رکھنے والے “ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہو، یعنی (اولیاء اللہ) نیز یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر کا مرجع مسجد حرام ہو یعنی وہ مسجد حرام کے دوسرے لوگوں سے زیادہ مستحق نہ تھے۔ (ان اولیآوہ الا المتقون ) ” اس کا اختیار رکھنے والے تو وہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں “ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں جنہوں نے صرف اللہ تعالیٰ کو عبادت کا سمتحق قرار دیا اور اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا، (ولکن اکثرھم لایعلمون) ” لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ “ اسی لئے وہ اپنے لئے ایسے امور کے مدعی ہیں جن کے دوسرے لوگ زیادہ مستحق ہیں۔
Top