Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
بیشک اللہ کو حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور ذوی القربی کو دیتے رہنے کا اور روکتا ہے بےحیائی، برائی اور سرکشی سے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو
قرآنی اوامر اور منہیا کا خلاصہ : اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۔ یہ عظیم آیت تمام قرآنی اوامر اور منہیات کا خلاصہ ہے۔ قرآن جن باتوں کا حکم دیتا ہے ان کی بنیادیں بھی اس میں واضح کردی گئی ہیں اور جن چیزوں سے وہ روکتا ہے ان کی اساسات کی طرف بھی اس میں اشارہ ہے تمام قرآنی اوامر کی بنیاد عدل، احسان اور ذوی القربی کے لیے انفاق پر ہے اور اس کی منہیات میں وہ چیزیں داخل ہیں جن کے اندر فحشاء منکر اور بغی کی روح فساد پائی جاتی ہے۔ یہاں اس کا حوالہ دینے سے مقصود ان لوگوں کو متنبہ کرنا ہے جو قرآن کی مخالفت میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے تاکہ وہ سوچیں کہ جس چیز کی وہ مخالفت کر رہے اس کی تعلیم کیا ہے اور اس کی مخالفت سے کس عدل و خیر کی مخالفت اور کس شر و فساد کی حمایت لازم آتی ہے۔ یہاں نہایت اجمال کے ساتھ صرف اوامرو منہیات کی اساسات کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ کس طرح کے احکام ہیں جو عدل و احسان کے تحت آتے ہیں اور کس نوعیت کی منہیات ہیں جو فحشاء منکر یا بغی میں داخل ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل اس سے آگے کی سورة۔ سورة بنی اسرائیل آیات 22 تا 39 میں آئی ہے۔ سورة بنی اسرائیل سورة نحل کے مثنی کی حیثیت رکھی ہے اس وجہ سے اس میں اس اجمال کی وضاحت کے لیے نہایت موزوں مقام تھا ہم تکرار بحث سے بچنے کے لیے یہ مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس اجمال کی وضاحت وہیں کی جائے، جب عدل احسان، انفاق اور فحشاء منکر بغی کے اہم اجزا بھی سامنے ہوں گے تو خیر و شر کے ان اصولوں کے سمجھنے میں بڑی آسانی ہوگی۔ وہیں انشاء اللہ ہم یہ بھی واضح کریں گے کہ اس تفصیل میں اور تورات کے احکام عشرہ میں بڑی مطابقت ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خیر و شر کے یہ اصول سابق ادیان میں بھی مسلم رہے ہیں۔ عدل کی توضیح : یہاں بالاجمال صرف یہ ذہن میں رکھیے کہ " عدل " یہ ہے کہ جس کا جو حق واجب ہم پر عاید ہوتا ہے ہم بےکم وکاست اس کو ادا کریں، خواہ صاحب حق کمزور ہو یا طاقت ور اور خواہ وہ ہم کو مبغوض ہو یا محبوب۔ احسان کی توضیح : احسان عدل سے ایک زائد شے ہے۔ یہ صف حق کی ادائیگی ہی کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ مزید برآں یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ دوسرے کے ساتھ ہمارا معاملہ کریمانہ اور فیاضانہ ہو۔ " ایتاء ذی القربی سے مراد : ایتاء ذی القربی احسان کی ایک نہایت اہم فرع ہے۔ قرابت مند عدل و احسان کے حقدار تو ہیں ہی مزید برآں وہ بربنائے قرابت مزید انفاق کے مستحق ہیں، ہر صاحب مال کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں پر فیاضی سے خرچ کرنا چاہیے۔ " فحشاء، منکر سے سے مراد : فحشاء کھلی ہوئی بےحیائی اور بدکاری کو کہتے ہیں۔ مثلاً زنا اور لواطت اور اس قبیل کی دوسری برائیاں۔ منکر معروف کا ضد ہے۔ معروف ان اچھی باتوں کو کہتے ہیں جن کا ہر اچھی سوسائٹی میں چلن ہو۔ مثلاً مہمانداری، مسافر نوازی، اور اس قبیل کی دوسری نیکیاں۔ منکر اس کا ضد ہے تو اس سے مراد وہ باتیں ہوں گی جو معروف اور عقل و عرف کے پسندیدہ طریقہ اور آداب کے خلاف ہوں۔ " بغی " سے مراد : بغی کے معنی سرکشی اور تعدی کے ہیں یعنی آدمی اپنی قوت و طاقت اور اپنے زور و اثر سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور اس سے دوسروں کو دبانے کی کوشش کرے۔ یہاں ان اجمالی اشارات پر قناعت کیجیے، آگے والی سورة میں ان کی پوری تفصیل آئے گی۔
Top