Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
کیا تم لوگ یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہاری بات مان لیں گے اور حال یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ اللہ کے کلام کو سنتا رہا ہے اور اس کو سمجھ چکنے کے بعد اس کی تحریف کرتا رہا ہے اور وہ جانتے ہیں اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ایمان لائے ہوئے ہیں
یہود سے خطاب کے بیچ میں یہ مسلمانوں کی طرف اسی طرح کا التفات ہے جس طرح کا التفات آیات ۶-۷ میں آنحضرت ﷺ کی طرف اور آیات ۲۱-۲۹ میں بنی اسمٰعیل کی طرف گزرا ہے۔ اس التفات کے دو مقصد ہیں۔ ایک تو مسلمانوں کو یہ اطمینان دلانا کہ وہ بنی اسرائیل کی مخالفت سے نہ بددل ہوں اور نہ اس پر متعجب کہ یہ پڑھے لکھے اور دین وشریعت کے عالم لوگ اس دعوت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کے ذہن ایسے ٹیڑھے واقع ہوئے ہیں کہ ایک بات کو اپنے نبی کی زبان سے سننے اور اس کا مدعا واضح طور پر سمجھ چکنے کے بعد بھی اس میں ٹیڑھ پیدا کرتے رہے اور اس کو اس کے منشا کے بالکل خلاف سمت میں موڑتے رہے ہیں، جیسا کہ گائے کی قربانی کے حکم کے معاملہ میں تم نے سنا، ایسے ٹیڑھے ذہن کے لوگوں یا ان کی تقلید کرنے والوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری سیدھی سیدھی بات بھی سیدھے طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ دوسرا مسلمانوں کو ان یہود کی بعض پس پردہ حرکات سے آگاہ کرنا، تاکہ جو سادہ لوح مسلمان ان کے فریب کارانہ دعوائے ایمان سے دھوکے میں آ کر حسن ظن رکھنے لگے تھے یا ان سے ربط ظبط بڑھانے کے خواہش مند تھے وہ متنبہ ہو جائیں کہ یہ تمام تر فریب کاری ہے، اس میں سچائی کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہے۔ يَسْمَعُوۡنَ كَلامَ اللهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوۡنَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوۡهُ وَهُمْ يَعْلَمُوۡنَ: حَرَف الشئی عن وجھہ کے معنی ہیں کسی شے کو اس کے صحیح رخ سے موڑ کر دوسری سمت میں کر دینا۔ اسی سے حَرَّفَ القول یا حَرَّفَ الکلام ہے جس کے معنی بات یا کلام کے بدل دینے کے ہیں۔ اس بدل دینے کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً ایک بات کی دیدہ ودانستہ ایسی تاویل کر دی جائے جو قائل کے منشا کے بالکل خلاف ہو۔ کسی لفظ کے طرز ادا اور قراءت میں ایسی تبدیلی کر دی جائے جو لفط کو کچھ سے کچھ بنا دے۔ مثلاً مروہ کو بگاڑ کر مورہ یا مریا وغیرہ کر دیا گیا۔ کسی عبارت یا کلام میں ایسی کمی بیشی کر دی جائے جس سے اصل مدعا بالکل خبط ہو کر رہ جائے مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہجرت کے واقعہ میں یہود نے اس طرح ردوبدل کر دیا کہ خانہ کعبہ سے ان کا کوئی تعلق ثابت نہ ہو سکے۔ کسی ذومعانی لفظ کا وہ ترجمہ کر دیا جائے جو سیاق وسباق کے بالکل خلاف ہو۔ مثلاً عبرانی کے ابن کا ترجمہ بیٹا کر دیا گیا درآں حالیکہ اس کے معنی بندہ اور غلام کے بھی آتے ہیں۔ ایک بات کا مفہوم بالکل واضح ہو لیکن اس کے متعلق ایسے سوالات اٹھا دیے جائیں جو اس واضح بات کو مبہم بنا دینے والے یا اس کو بالکل مختلف سمت میں ڈال دینے والے ہوں۔ اہل کتاب تحریف کی ان تمام قسموں کے مرتکب ہوئے اور قرآن نے ان کو ان سب کا مجرم گردانا ہے۔ موقع موقع کے لحاظ سے آگے اس کتاب میں ہر ایک تفصیل ضروری دلائل کے ساتھ انشاء اللہ آئے گی۔ یہاں اجمال کے ساتھ صرف اس کی مختلف صورتوں اور اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ تحریف پر تحریف کا اطلاق صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب وہ دیدہ ودانستہ اور سمجھ بوجھ کر کی جائے۔ قرآن مجید نے اس کے ساتھ قید لگائی ہے مِنۡ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَھُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ (بعد اس کے کہ انہوں نے اس کو سمجھ لیا اور وہ جانتے تھے کہ وہ تحریف کر رہے ہیں) یہی علم و شعور ہے جو درحقیقت تحریف کو ایک سنگین جرم بناتا ہے اور اس جرم کی سزا میں اس جرم کے مرتکبین اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے نور علم سے یک قلم محروم کر دیے جاتے ہیں۔
Top