Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ
: اور
ذَا النُّوْنِ
: ذوالنون (مچھلی والا)
اِذْ
: جب
ذَّهَبَ
: چلا وہ
مُغَاضِبًا
: غصہ میں بھر کر
فَظَنَّ
: پس گمان کیا اس نے
اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ
: کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے
عَلَيْهِ
: اس پر
فَنَادٰي
: تو اس نے پکارا
فِي الظُّلُمٰتِ
: اندھیروں میں
اَنْ لَّآ
: کہ نہیں
اِلٰهَ
: کوئی معبود
اِلَّآ اَنْتَ
: تیرے سوا
سُبْحٰنَكَ
: تو پاک ہے
اِنِّىْ
: بیشک میں
كُنْتُ
: میں تھا
مِنَ
: سے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور ذولنون پر بھی ہم نے رحم کیا جب کہ وہ قوم سے برہم ہو کر چل کھڑا ہوا اور اس نے گمان کیا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ پس اس نے تاریکیوں کے اندر پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے۔ بیشک میں ہی قصور وار ہوں !
ذوالنون ؑ کی لغزش کی نوعیت ذولنون سے مراد حضرت یونس ہیں۔ قدیم صحیفوں میں ان کا نام یوناہ آیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر ذوالنون (مچھلی والا) کے لقب سے کیا ہے۔ نون مچھلی کو کہتے ہیں چونکہ ان کو مچھلی نے نگل لیا تھا اس وجہ سے ان کو یہ لقب عطا ہوا جس میں مچھلی کے واقعہ کی تلمیح بھی ہے اور ایک قسم کا پیار بھی۔ حضرت یونس اہل نینوا کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ نینوا کی آبادی، صحیفہ یونس کی روایت کے مطابق، ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔ قرآن کی سورة صافات میں بھی مائۃ الف او یزیدون کے الفاظ آئے ہیں جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت یونس نے ایک مدت تک اہل نینوا کو دعوت دی لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔ بالآخر ان پر حق کی حمیت غالب آئی اور قوم کی اس ناقدری و سنگ دلی سے مایوس و آزردہ ہو کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے خیال فرمایا کہ جب ان پتھروں میں جونک لگانا ممکن نہیں ہے تو کیوں ایسے ناقدروں کے پیچھے اپنا وقت برباد اور ان کی خاطر اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا رکھا جائے ! حق کی ناقدری و کسمپرسی پر ایک صاحب حق کے اندر یہ جذبہ پیدا ہونا ایک ام فطری ہے لیکن اس جذبہ کے غلبہ میں معاملہ کا ایک دوسرا نہایت اہم پہلو حضرت یونس کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا۔ وہ یہ کہ خدا کے رسول کو اپنی قوم کو کب چھوڑنا چاہئے ؟ یہ اس کے اپنے فیصلہ کرنے کی چیز نہیں بلکہ خدا ہی کے فیصلہ کرنے کی ہے۔ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کب کسی قوم کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور کب کسی رسول کے لئے یہ روا ہے کہ وہ اپنی قوم سے اعلان برأت کر کے ہجرت کرے اور قوم کو اللہ کے عذاب کے حوالہ کرے۔ حضرات انبیاء کے لئے ہمیشہ یہ سنت الٰہی رہی ہے کہ وہ خدا کے اذن کے بغیر اپنی قوم کو نہ چھوڑیں اگرچہ ان کے سر پر آ رے ہی کیوں نہ چلتے رہیں اور اگرچہ ایک شخص بھی ان کی دعوت پر کان دھرنے والا نہ نکلے۔ حضرت یونس حمیت حق کے جوش میں اس سنت الٰہی کو ملحوظ نہ رکھ سکے۔ انہوں نے خیال فرمایا کہ ایک طویل مدت تک لوگوں کو جگانے اور جھنجھوڑنے کی کوشش کے بعد بھی جب کوئی ان کی بات کو سننے والا نہیں نکلا تو اب عند اللہ وہ بری الذمہ ہیں، انہیں ایسی ناہنجار قوم کو خدا کے عذاب کے حوالہ کر کے اس سے الگ ہوجانا چاہئے۔ اپنے کو بری الذمہ سمجھنے کے معنی یہ بھی تھے کہ وہ اپنے اس اقدام پر خدا کی طرف سے کسی گرفت کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا گمان یہ تھا کہ اس طرح وہ اس ابتلاء سے چھوٹ جائیں گے جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت یونس کا یہ خیال بجائے خود ایک پاکیزہ جذبہ پر مبنی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے جو آزمائشیں مقرر کر رکھی ہیں وہ لازماً پوری ہو کے رہتی ہیں۔ وہ قوم سے بیزارہو کر ایک کشتی میں، جو سفر پر روانہ ہونے کے لئے بالکل تیار کھڑی تھی۔ سوار ہوگئے کشتی کچھ منزل طے کرنے کے بعد طوفان میں گھر گئی۔ جب طوفان کسی طرح ٹلتا نظر نہیں آیا تو ملاحوں نے اس زمانے کے عام و ہم کے مطابق یہ خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کشتی میں اپنے آقا سے بھاگا ہوا کوئی غلام سوار ہوگیا ہے، جب تک اسے پکڑ کر سمندر کے حوالے نہ کیا جائے گا اس طوفان سے نجات نہیں مل سکتی۔ بالآخر یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کشتی میں مفرور غلام کون ہے قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ ڈالنے کی خدمت، جیسا کہ سورة صافات میں اشارہ ہے، حضرت یونس ہی کے سپرد ہوئی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہوگی کہ تمام اہل کشتی میں لوگوں کو سب سے زیادہ ثقہ آدمی وہی نظر آئے ہوں گے۔ بہرحال قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ حضرت یونس کے نام کا نکلا جس کے نتیجے میں وہ کشتی سے سمندر میں لڑھکا دیئے گئے۔ سمندر میں ان کو کسی بڑی مچھلی غالباً وہیل، نے نگل لیا لیکن خدا کے رسول کو ہضم کرنا آسان نہیں ہے۔ حضرت یونس نے جب دیکھا کہ مشکلات کی تاریکی سے نکلنے کی جو راہ انہوں نے اختیار کی اس نے ان کو اس سے بھی زیادہ گہری تاریکیوں میں ڈال دیا تو ان کے دل سے وہ زندہ جاوید دعا نکلی جس کے لئے یہ ضمانت ہے کہ وہ اگر صدق دل سے کی جائے تو کبھی قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور مچھلی نے ان کو ساحل کی ریت پر اگل دیا۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے نڈھال جسم کو گرمی اور دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لئے کدویا اسی قسم کی کوئی بیل اگا رکھی تھی۔ جس کے نیچے ان کو پناہ ملی۔ جب اس حادثہ سے اوسان بجا ہوئے اور جسم میں کچھ جان آئی تو ان کے پھر اہل نینوا کے پاس انذار کے لئے جانے کی ہدایت ہوئی۔ صحیفہ یونس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دوبارہ انذار کے لئے قدرت نے ایک مئوثر تقریب بھی پیدا کردی۔ وہ یوں کہ وہ بیل جس کے سایہ نے حضرت یونس کو امان دی تھی، کسی سبب سے دفعتاً سوکھ گئی۔ احسان شان لوگ چھٹوی چھوٹی چیزوں کے احسان کی بھی قدر کرتے ہیں۔ حضرت یونس کو اس یادگار بیل کے یوں خشک ہوجانے کا احساس ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کو توجہ دلائی کہ ایک حقیر بیل جس کے لگانے اور پروان چڑھانے پر تم نے کوئی م حنت نہیں کی، سوکھ جانے پر تم یوں ملول ہوئے تو غور کرو کہ میں اس عظیم نینوا کو کس طرح اپنے عذاب کے حوالے کرسکتا ہوں جس کو میں نے پدلا کیا، جسکی پرورش کی اور جس کو پروان چڑھایا ہے ! جائو ان کو پھر دعوت دو ، شاید وہ نیکی کی راہ اختیار کریں اور میری رحمت کے مستحق ٹھہریں۔ اس ہدایت کے مطابق حضرت یونس پھر اہل نینوا کے پاس انذار کے لئے گئے اور ان کی اس دوبارہ دعوت و تذکیر کا یہ اثر ہوا کہ بادشاہ سے لے کر نینوا کے عام باشندے تک سب کا نپ اٹھے، سب خدا پر ایمان لائے، بادشاہ نے شاہی لباس اتار کر ٹاٹ کا پیرہن پہن لیا اور باشندوں کے نام فرمان جاری کیا کہ ہر کوئی اپنی بر راہ سے باز آجائے، روزہ رکھے، خدا کے حضور زاری کرے اور توبہ وانابت کا سرجھکائے ! ! حضرت یونس کے واقعہ کی روایت میں چونکہ مفسرین نے بڑا گھپلا کردیا ہے۔ اس وجہ سے میں نے اس کی مسیح نوعیت واضح کرنے کے لئے اس کی تفصیل پیش کردی۔ یہ تفصیل صحیفہ یونس نور قرآن کی تصریحات و اشارات پر مبنی ہے۔ آگے سورة صفات کی تفسیر میں انشاء اللہ اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ اس تفصیل کو پیش نظر رکھ کر اب آیت کے اجزاء پر غور کیجیے۔ قوم کی ناقدری پر غصہ اذ ذھب مغاضبا مغاضباً کا مفعول یہاں بر بنائے قرینہ محذوف ہے۔ یعنی اپنی قوم سے ناراض و آزردہ ہو کر وہ اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ آزادگی و ناراضگی ظاہر ہے کہ اسی بات پر ہو سکتی ہے کہ انہوں نے متنبہ کرنے کے لئے سارے جتن کر ڈالے لیکن اس نے ان کی کوئی پروا نہ کی بلکہ حق کی توہین کرتی اور ان کی باتوں کا مذاق اڑاتی رہی۔ حضرت یونس کے اقدام کا ایک مخفی پہلو فظن ان لن نقد وعلیہ یعنی وہ سمجھے کہ اس طرح وہ اس مصیبت سے چھوٹ جائیں گے جس میں اس وقت قوم کے ہاتھوں وہ مبتلا ہیں۔ اسی جوش غیرت میں ان کی اس بات کی طرف توجہ نہیں ہوئی کہ جس محاذ پر انکو خدا نے مامور کیا ہے اگر وہ خدا کے حکم کے بغیر اس کو چھوڑیں گے تو خدا ان کو اس سے بھی کسی بڑی آزمائش میں ڈال سکتا ہے۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اقدام کے ایک ایسے پہلو پر عکس ڈالا ہے جس پر اگرچہ حضرت یونس کی نظر نہیں پڑی تھی لیکن وہ اس کے اندر مضمر تھا۔ حضرت یونس یہ گمان تو ایک لمحہ کے لیء بھی نہیں کرسکتے تھے کہ وہ قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تو خدا کی گرفت سے باہر ہوجائیں گے۔ البتہ یہ گمان ان کو ہوا ہوگا کہ ان ناہنجاروں سے الگ ہو کر میں اس جنجال سے نکل جائوں گا جس میں اس وقت ان کی خاطر مبتلا ہوں اور بقیہ زندگی یکسو ہو کر گزاروں گا۔ رسول محاذ پر مامور ایک مجاہدہے یہ گمان بجائے خود کوئی معصیت نہیں ہے لیکن رسول، جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے محاذ پر مامور ایک مجاہد کی حیثیت رکھتا ہے اس وجہ سے اس کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے سے میدان چھوڑے اگرچہ اس چھوڑنے کا محرک حمیت حق کا جذبہ ہی ہو۔ اگر وہ ایسا کرے تو درپردہ اس کے اندر یہ بات مخفی ہے کہ وہ خدا کے ابتلاء سے خود اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔ یہ مخفی پہلو حضرت یونس پر واضح نہیں تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو کھول دیا تاکہ اس کی سنگینی نگاہوں کے سامنے آجائے۔ یہ امر محلوظ رہے کہ بسا اوقات آدمی ایک اقدام کرتا ہے جو بالکل معصومانہ ہوتا ہے لیکن وہ ایک ایسے گمان کی بھی غمازی کرتا ہے جو غلط ہوتا ہے اور اس کی طرف اس وقت تک توجہ نہیں ہوتی جب تک کوئی دانا اس کی طرف توجہ نہ دلائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت یونس کے اسی گمان کو بےنقاب کیا ہے تاکہ اس کی اصلاح ہو۔ باطنی اصلاح و تربیت کے معاملہ میں یہی طریقہ حکیمانہ ہے۔ حضرت انبیاء (علیہم السلام) تاکہ اس کی اصلاح ہو۔ باطنی اصلاح و تربیت کے معاملہ میں یہی طریقہ حکیمانہ ہے۔ حضرات انبیاء (علیہم السلام) چونکہ تمام انسانیت کے لئے نمونہ ہوتے ہیں اس وجہ سے ان سے کوئی ادنی لغزش بھی صادر ہوتی ہے تو رب حکیم وعلیم اپنے خاص ایکسرے کے ذریعے سے ان کو دکھا دیتا ہے کہ ان کی یہ بات کہاں تک متعدید ہو سکتی ہے اگر اس کا تدارک نہ ہو۔ اس ٹکڑے کی اگر یہ تاویل لی جائے تو یہ عقل و فطرت کے بالکل مطابق بھی ہے، اس سے حضرت یونس پر کوئی الزام بھی عائد نہیں ہوتا اور اس تکلف کی بھی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی جو لوگوں نے لن لقدر علیہ کی تاویل میں لغت سے تجاوز کر کے کیا ہے۔ حالانکہ اس تکلف کے بعد بھی وہ اس مشکل کو حل نہ کرسکے جو اس میں ہے۔ حضرت یونس کی دعا فنادی فی الظلمت ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین یہاں اس واقعہ کی تفصیل حذف کردی گئی ہے جو حضرت یونس کو کشتی میں پیش آیا۔ صرف اس دعا کا ذکر فرمایا ہے جو مچھلی کے پیٹ اور قعر سمندر کی تاریکیوں کے اندر انہوں نے کی اور جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ اس حذف کی وجہ، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں، یہ ہے کہ مقصود یہاں قصہ کی تیل نہیں بلکہ صرف یہ دکھانا ہے کہ رب کریم تاریک سے تاریک حالات کے اندر بھی اپنے بندے کی دعائیں قبول فرماتا اور اس کو بڑی سے بڑی آفت سے نجات دیتا ہے بشرطیکہ بندہ اپنے رب ہی کو ملجا و ماویٰ سمجھے اور اسی سے دعا و فریاد کرے۔ صحیفہ یونس میں اس دعا کا ذکر ان لفظوں میں آیا ہے۔ ”اس نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دعا ماگنی اور اس نے اس کی پکار سن لی تھی۔ وہ پامال کے بطن میں سے چلایا اور اس کی پکار سنی گئی۔“ 1:2 ظلمت کا مفہوم لفظ ظلمت اس تاریکی کی شدت اور اس کے اطراف کی وسعت اور اس کے ناپیدا کنار ہونے کو ظاہر کر رہا ہے۔ عربی زبان میں جمع کبھی کبھی کسی شے کے اطراف کی وسعت کے اعتبارے بھی آتی ہے۔ ہم اس کی مثال میں مشارق و مغارب کا حوالہ دے چکے ہیں۔ یہاں اس سے مراد مچھلی کے پیٹ اور پاتمال کی گہرائیوں کی تاریکیاں ہیں۔ مقصود اس لفظ سے یہ واضح کرنا ہے کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ خدا کو اپنی بات سنانے کے لئے کسی پبلک پلیٹ فارم یا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے بندوں کی فریاد پاتال کی تاریکیوں اور سمندر کی گہرائیوں سے بھی سنتا اور ان کی فریاد رسی کرتا ہے۔ حضرت یونس کا اعتراف تقصیر لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین یہ حضرت یونس کی دعا ہے۔ اس دعا میں ان کی طرف سے طلب و تمنا کسی چیز کی بھی نہیں ہے۔ صرف اپنی تقصیر کا اعتراف و اظہار ہے۔ اعتراف تقصیر کے بعد انہوں نے اپنے معاملے کو اپنے رب پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو فیصلہ فرمائے وہی حق ہے اور اسی میں حکمت و رحمت ہے اس لئے کہ وہ ہر عیب سے پاک ہے۔ سب سے پہلے خدا ہی کے معبود اور ملجا و ماویٰ ہونے کا اظہار کیا ہے، اس کے بعد اس کو ہر نقص وعیب سے پاک اور منزہ قرار دیا ہے، پھر اپنی تقصیر کا اعتراف فرمایا ہے کہ یہ جو کچھ پیش آیا سرتا سر میری اپنی ہی غلطی کا نتیجہ ہے۔ میں نے خود ہی اپنی جان پر ظلم ڈھایا، میرے رب نے مجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا۔
Top