Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 43
مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَؕ
مَا تَسْبِقُ : نہیں سبقت کرتی ہے مِنْ اُمَّةٍ : کوئی امت اَجَلَهَا : اپنی میعاد وَمَا : اور نہ يَسْتَاْخِرُوْنَ : پیچھے رہ جاتی ہے
نہ کوئی قوم اپنی اجل معین سے پہل ہی کرتی اور نہ وہ اس سے پیچھے ہی ہٹتی ہے
قوموں کی اجل معین کا اندازہ اور قریش کو تنبیہ میرے نزدیک یہاں عربی زبان کے معروف قاعدے کے مطابق مضارع سے پہلے فعل ناقص محذوف ہے اور اوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان، وضاحت قرینہ کی بنا پر خلا بھی ہے۔ اگر محذوف کو کھول دیجیے اور خلا کو بھر دیجیے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ان قوموں کی طرف ہم نے اپنے رسول بھیجے لیکن انہوں نے ان کی تکذیب کی جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ ہر قوم اپنی مہلت پوری کرچکنے کے بعد اپنے کیفر کردار کو پہنچی نہ کسی قوم پر اس کی اجل معین پوری ہونے سے پہلے عذاب آیا اور نہ کسی قوم کو اجل معین پوری ہوجانے کے بعد ایک منٹ کی مہلت علی قوموں کی ہلاکت کی اجل سے متعلق ہم دوسرے مقام میں یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اجل قوموں کے اخلاقی زوال کے پیمانہ سے ناپ کر مقرر کی ہے اور یہ خدا ہی جانتا ہے کہ کب کوئی قوم اپنے اخلاقی زوال کی اس حد کو پہنچی کہ اب اس کے وجود سے خدا کی زمین کو پاک ہوجانا چاہئے۔ یہ قریش کو تنبیہ ہے کہ اپنے رسول سے عذاب کے لئے جلدی نہ مچائو۔ جب تمہارا پیمانہ بھر جائے گا تو تم بھی فنا کردیئے جائو گے۔ نہ تمہارے جلدی مچانے سے خدا وقت سے پہلے تم پر عذاب بھیجے گا اور نہ وقت پورا ہوجانے کے بعد ایک سیکنڈ کی مہلت دے گا۔ قوموں کے باب میں سنت الٰہی یہی رہی ہے، اسی سنت کے مطابق تمہارے ساتھ بھی معاملہ ہوگا۔
Top