Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 137
اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَۙ
اِنْ ھٰذَآ : نہیں ہے اِلَّا : مگر خُلُقُ : عادت الْاَوَّلِيْنَ : اگلے لوگ
یہ بات تو بس اگلوں سے چلی آرہی ہے
آیت 138-137 خلق الاولین وہ روایت جو پہلوں سے چلی آرہی ہے۔ یعنی عذاب کا جو ڈراوا تم ہمیں سنا رہے ہو، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے بھی اس قسم کے ڈراوے سنائے جاتے رہے ہیں لیکن یہ محض ڈراوے تھے۔ نہ پہلے عذاب آیا نہ اب پر کوئی عذاب آنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے جیسے وہ ہمی لوگ اس قسم کی باتیں پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ ہم اس قسم کے فرضی اندیشوں میں مبتلا ہونے والے نہیں ہیں۔ یہ مضمون سورة مومنوں :83 میں بھی گزر چکا ہے اور آگے سو فضل آیت 68 میں بدیں الفاظ آیا یہ۔ لقد وعدنا ھذا انحن و بآء نا من قبل ان ھذا الا اساطیر الاولین (اس کی دھمکی ہمیں بھی سنائی جا رہی ہے اور اس سے پہلے ہمارے آباء و اجداد کو بھی سنائی جا چکی ہے۔ یہ محض اگلوں کے فسانے ہیں) یہ امر محلوظ رہے کہ اس دنیا کی تاریخ میں کوئی دور ایسے خلا کا نہیں گزرا ہے جس میں غافلوں کو جھنجھوڑنے والوں نے عذاب اور قیامت سے لوگوں کو نہ ڈرایا ہو لیکن غافلوں نے ہمیشہ روش اختیار کی جو قوم ہود نے اتخیار کی۔ قیامت کو انہوں نے اس لئے افسانہ قرار دیا کہ اس کا ذکر تو چلا آ رہا ہے لیکن وہ آئی نہیں۔ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ نہ وہ آئی ہے نہ آئے گی بلکہ یہ محض وہمیوں کا پھیلایا ہوا افسانہ ہے۔ اسی طرح قوموں پر جو عذاب آئے ان کی یاد دہانی بھی بالکل بےاثر رہی۔ وقت کے دانشوروں نے ان کی توجیہ یہ کرلی کہ اس طرح کے نرم و گرم دن تو قوموں کی زندگی میں پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ ان کو ہمارے عقائد و اعمال سے کیا تعلق !
Top