Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 137
اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَۙ
اِنْ ھٰذَآ : نہیں ہے اِلَّا : مگر خُلُقُ : عادت الْاَوَّلِيْنَ : اگلے لوگ
یہ تو اگلوں ہی کے طریق ہیں
ان ہذا الا خلق الاولین۔ یہ تو پہلے لوگوں کی عادت ہی ہے (کہ وہ اسی طرح کی جھوٹی باتیں بنایا کرتے تھے) یا یہ مطلب ہے کہ ہمارا جو مذہب اور دین ہے۔ یہی دین ہمارے اسلاف کا تھا اور ہم ان کے پیرو ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ زندگی اور موت کی یہ رفتار پہلے زمانے سے یوں ہی چلی آئی ہے سب لوگ پیدا ہوتے اور مرتے رہے ہیں۔ کسائی ‘ ابو جعفر اور ابو عمرو کی قرأت میں لفظ خلق کی بجائے خلق بسکون لام آیا ہے اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ تم ہم کو جو وعظ نصیحت کر رہے ہو یہ تو پہلے لوگوں کی من گھڑت اور دروغ بافی ہے۔ اور خلقکا معنی ہے خود کسی بات کو گھڑنا۔ آیت میں آیا ہے وَتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا تم خود جھوٹ گھڑتے ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ پہلے لوگوں سے یہ طریقہ چلا آیا ہے وہ پیدا ہوتے اور مرتے رہے ہیں ہم بھی پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔ نہ وہ مر کر اٹھے نہ ان کا حساب ہوا نہ ہم مر کر دوبارہ اٹھیں گے۔ نہ ہمارے اعمال کا حساب ہوگا۔
Top