Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 8
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا كَانَ : اور نہیں ہیں اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اس میں بیشک بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں
آیت 9-8 یعنی اگر یہ کسی نشانی ہی کے طالب ہیں تو اس سے بڑی نشانی اور کیا چاہئے ! یہاں ان تمام دلائل توحید و قیامت و جزا کو ذہن میں مستحضر کر لیجیے جو قرآن میں تفصیل سے مذکور ہوئے ہیں اور جن کی شہادت میں قرآن نے زمین کو انہی نعمتوں اور برکتوں کا حوالہ دیا ہے۔ آگے سورة لقمان کی آیت 10 اور سورة سجدہ کی آیت 27 کے تحت اس مضمون کی پوری وضاحت ہوجائے گی۔ وما کان اکثر ھم مئومنین یعنی یہ بات نہیں ہے کہ نشانیوں کی کمی ہے۔ نشانیوں سے تو اس زمین کا چپہ چپہ معمور ہے لیکن جو لوگ ایمان نہیں لانا چاہتے ان کا کیا علاج ! خدائے عزیز ورحیم کی سنت امہال وان ربک لھو العزیز الرحیم یہ وہی اوپر والی بات اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کی روشنی میں واضح فرمائی ہے کہ تمہارا خدا وند عزیز بھی ہے اور ساتھ ہی رحیم بھی عزیز یعنی غالب، وہ جو چاہے کرسکتا ہے کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ اگر وہ ان پر فوراً کوئی عذاب نازل کر دے تو کوئی اس کی پکڑ سے ان کو بچا نہ سکے گا، لیکن وہ رحیم بھی ہے اس وجہ سے عذاب بھجنے میں جلدی نہیں کرتا کہ جو لوگ توبہ اور اصلاح کرنی چاہیں وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر کرلیں اور اس کی رحمت کے سزا وار بن جائیں۔ یہاں مبتدا کے اعادہ سے مقصود خاص طور پر ان صفات پر زور دینا اور لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا ہے اس لئے کہ خا کی ان صفات کو مستحضر نہ رکھنے ہی کے باعث نادانوں کو یہ مغالطہ پیش آیا کہ وہ خدا کی ڈھیل کو اپنے رویہ کے صحت و صداقت کی دلیل سمجھ بیٹھے اور نہایت غرور کے ساتھ ان لوگوں کا مذاق اڑایا جنہوں نے ان کو اصلاح کی دعوت دی … یہ آیات اس سورة میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا بار بار آئیں گی اس وجہ سے ان کے مفہوم کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے تاکہ آگے اس کے اعادے کی ضرورت نہ پیش آئے۔
Top