Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 46
قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ١ۚ لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لِمَ : کیوں تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کرتے ہو بِالسَّيِّئَةِ : برائی کے لیے قَبْلَ : پہلے الْحَسَنَةِ : بھلائی لَوْ : کیوں لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ : تم بخشش نہیں مانگتے اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُرْحَمُوْنَ : تم پر رحم کیا جائے
اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو، تم بھلائی سے پہلے برائی کے لئے کیوں جلدی مچائے ہوئے ہو ! تم اللہ سے مغفرت کیوں نہیں مانگتے کہ تم پر رحم کیا جائے۔ !
قال یقوم لم تسغجلون بالستیۃ قبل الحسنۃ لولا تسغفرون اللہ لعلکم ترحمون (46) دعوت حق کے مخالفین کا عام حربہ، جیسا کہ قرآن میں جگہ جگہ واضح ہوچکا ہے، یہی رہا ہے کہ رسول نے قوم کو جس عذاب سے ڈرایا قوم نے اسی عذاب کا مطالبہ شروع کردیا کہ اس عذاب کو آنکھوں سے دکھا دو تب ہم مانیں گے کہ تم خدا کے رسول اور اپنی بات میں سچے ہو۔ یہی مطالبہ حضرت صالح کی قوم نے بھی کیا۔ حضرت صالح نے نہایت درد مندی کے ساتھ سمجھایا کہ لوگو ! میں تمہیں خدا کی رحمت کی دعوت دے رہا ہوں تو تم اس رحمت سے پہلے خدا کی نقمت کے لئے کیوں جلدی مچا رہے ہو، عذاب کے مطالبہ کے بجائے ژانپے جرائم کی معافی کیوں نہیں مانگتے کہ خدا کی رحمت کے مستحق بنو ستیۃ سے مراد، یہاں قرینہ دلیل ہے کہ عذاب اور نقمت ہے اور حسنۃ سے استغفار جس کا ثمرہ خدا کی رحمت ہے … یہ امر محلوظ ہے کہ اس مرحلے میں بعینہ یہی رویہ آنحضرت ﷺ کی قوم نے بھی اختیار کرلیا تھا۔ ان کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ اگر اس دعوت کی تکذیب کا انجام ان کی ہلاکت ہے تو اس ہلاکت کی کوئی نشانی ان کو دکھا دی جائے تب وہ مان جائیں گے کہ بیشک قرآن اللہ کی کتاب ہے اور اس کالا نے والا اللہ کا رسول ہے۔ ان لوگوں کو گویا حضرت صالح کی زبان ہے یہ جواب دیا گیا ہے کہ تم کو روٹی دی جا رہی ہے تو پتھر نہ مانگو روٹی کی جگہ پتھر مانگنے والوں کا انجام بہت عبرت انگیز ہوچکا ہے اور تمہاری بدبختی ہی ہوگی اگر اس سے سبق نہ حاصل کرو۔
Top