Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 56
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْۤا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ١ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ
فَمَا : پس نہ كَانَ : تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّا اَنْ : مگر۔ صرف یہ کہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَخْرِجُوْٓا : نکال دو اٰلَ لُوْطٍ : لوط کے ساتھی مِّنْ : سے قَرْيَتِكُمْ : اپنا شہر اِنَّهُمْ : بیشک وہ اُنَاسٌ : لوگ يَّتَطَهَّرُوْنَ : پاکیزگی پسند کرتے ہیں
تو اس کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ لوط کے ساتھیوں کو اپنی بستی سے نکال دو ، یہ لوگ بڑے پارسا بنتے ہیں !
فماکان جواب قومہ الا ان قالوآ اخرجوآ ال لوط من تریتکو انھم اناس یتطھرون (56) حضرت لوط کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش اس کھلی ہوئی بےحیائی کے حق میں کوئی دلیل تو وہ گھڑ نہیں سکتے تھے لیکن اس کو چھوڑنے کے لئے بھی وہ تیار نہیں تھے اس وجہ سے واحد چارہ کار ان کے پاس یہی رہ گیا کہ کسی نہ کسی طرح حضرت لوط کی سرزنش سے پیچھا چھڑائیں قوم کے سرغنوں نے اپنے آدمیوں کو ورغلایا کہ لوط اور ان کے ساتھیوں کو اس بستی سے نکال دو۔ انھم اناس یتطھرون (یہ لوگ بڑے پا رسا بنتے ہیں) اس فقرے میں جو زہر ہے وہ اہل ذوق سے مخفی نہیں ہے حضرت لوط اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اپنی قوم کے جذبات بھڑکانے کے لئے انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ دیکھو ان کے نزدیک ہماری پوری قوم کی قوم تو بدمعاشوں اور گنڈوں کی قوم بےبس یہی گنتی کے چند نفوس پاک دامن رہ گئے ہیں ! جب کوئی برائی وبائے عام کی شکل اختیار کرے تو اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اس طرح کے زہر آلود طعنوں سے بڑی آسنی کے ساتھ نکوبنایا جاسکتا ہے۔ اگر اس میں کسی کو شک ہو تو وہ آج بیگمات کی کسی مجلس میں بےپردگی کے خلاف دو کملے کہہ کر اس کی تصدیق کرسکتا ہے۔ لفظ ال پر ہم دوسرے محل میں بحث کر کے واضح کرچکے ہیں کہ یہ اہل و عیال اور اتباع سب پر مشتمل ہے۔
Top