Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے نبی ! ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوش خبری پہنچانے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اللہ کی طرف، اس کے اذن سے ،
یاکھا النبی انا ارسلنک شاہدا و مبشرا ونذیرا وادعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا (45۔ 46) یہ نبی ﷺ کو خطاب کرکے آپ کا منصب بتایا گیا ہے اور اس منصب کے ساتھ جو زمہ داریاں وابستہ ہیں ان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے تاکہ حضور ﷺ پر بھی یہ واضح ہوجائے کہ آپ کو کیا کام کرنے ہیں اور کس طرح کرے ہیں اور دوسروں پر بھی آپ کی شخصیت کی اصلی نوعیت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ موافقین و مخالفین دونوں اسی روشنی میں اپنے اپنے رویے کا جائزہ لے سکیں۔ فرمایا کہ اے نبی ! ہم نے تم کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ ’ شاھد ‘ سے مراد ہے اللہ کے دین اور اس کے احکام و مرضیات کی گواہی دینے والا۔ رسول کی بعثت کا اصلی مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بتائے کہا اللہ نے کن باتوں کا حکم دیا ہے، کن باتوں سے روکا ہے۔ مبشرا ونذیرا سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے پیغام کو قبول کرلیں ان کو آپ ابدی فوزو فلاح کی خوشخبری دیں اور جو لوگ اس سے اعراض یا اس کی تکذیب کریں ان کو اس کے نتائج سے آگاہ کردیں۔ اس انداز وتبشیر کے بعد اس شہادت سے متعلق آپ کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اس امر کی آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کی یا روکی اور اگر قبول کی تویکسوئی کے ساتھ قبول کی یا تذبذب کے ساتھ قبول لی۔ ان تمام امور کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے۔ ’ وودای علی اللہ باذنہ ‘۔ یہ اسی مضمون کا مزید وضاحت ہے کہ تم کو اللہ نے اپنے حکم سے اپنی طرف لوگوں کو بلانے کے لئے مامور فرمایا ہے کہ لوگ شیطان اور اس کی ذریات کی پیروی چھوڑ کر اپنے رب کی طرف آئیں۔ اس کے ساتھ باذنہ کی قید نبی ﷺ کی تسلی اور اطمینان دہانی کے لئے ہے کہ دعوت الی اللہ کی اس مہم پر خود اللہ تعالیٰ نے آپ کا مامور فرمایا ہے اس وجہ سے وہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ ہر قدم پر آپ کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی خود ساختہ نبی تو نہیں ہے کہ اللہ آپ کے بھٹکنے کے لئے چھوڑ دے بلکہ۔ یہ ذمہ داری آپ پر اللہ نے ڈالی ہے تو اس کے اٹھانے میں بھی آپ کی مدد فرمائے گا اور آپ مخالفوں کی تمام مخالفانہ سرگرمیوں کے عالی الرغم اپنے مشن میں کامیاب ہوں گے۔ ‘ وصراجا منیرا ‘ یعنی اللہ نے آپ کو ایک روشن چراغ بنایا جو خود بھی علم و حکمت کے نور سے منتھ ہے اور لوگوں کو بھی تاریکیوں سے نکال کر اللہ کی سراط مستقیم کی طرف لانے کے لئے رہنمائی کر رہا ہے۔ اگر لوگ اسراجِ منیر کی قدر نہیں کریں گے تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے بلکہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کریں گے۔ اس دنیا میں گمراہیوں میں بھٹکتے رہیں گے اور آخرت میں جہنم کے ایندھن بنیں گے۔
Top