Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 12
اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْ١ۣؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۠   ۧ
اِنَّا نَحْنُ : بیشک ہم نُحْيِ : زندہ کرتے ہیں الْمَوْتٰى : مردے وَنَكْتُبُ : اور ہم لکھتے ہیں مَا قَدَّمُوْا : جو انہوں نے آگے بھیجا (عمل) وَاٰثَارَهُمْ ڳ : اور ان کے اثر (نشانات) وَكُلَّ : اور ہر شَيْءٍ : شے اَحْصَيْنٰهُ : ہم نے اسے شمار کر رکھا ہے فِيْٓ : میں اِمَامٍ مُّبِيْنٍ : کتاب روشن (لوح محفوظ
بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم نوٹ کر رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے کے لئے بڑھایا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا اور ہم نے ہر چیز ایک واضح کتاب میں محفوط کرلی ہے
آیت 12 یہ اسی روز جزا کی یاد دہانی ہے جو اس کی رحمانیت کا لازمی تقاضا ہے۔ فرمایا کہ ایک دن آئے گا کہ ہم تمام مردوں کو زندہ کریں گے اور اس دنیا میں انہوں نے آگے کے لئے جو کچھ کیا اور پیچھے کے لئے جو کچھ چھوڑا ہے، ہم اس سارے کو قلم بند کر رہے ہیں۔ مقصود اس سے اس کے لازم کو واضح کرنا ہے کہ جب ہم سب کو زندہ بھی کریں گے اور ہر ایک کے اعمال نوٹ بھی کرر ہے ہیں تو لازماً ہر ایک کے ساتھ اس کے اعمال کے مطابق معاملہ بھی کریں گے۔ اس لازمی نتیجہ کی یہاں وضاحت نہیں کی۔ اس کی وجہ اول تو یہ ہے کہ یہ بغیر ذکر کے بھی واضح ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے باب میں منکرین کا اصلی شبہ صرف دو پہلوئوں سے تھا۔ ایک اس پہلو سے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو مستعبد سمجھتے تھے۔ دوسرا اس پہلو سے کہ اتنی وسیع دنیا کے تمام اعمال و اقوال کون محفوظ رکھ سکتا ہے کہ وہ ایک دن اس سارے کا حساب کرنے بیٹھے ؟ یہ دونوں شبہات یہاں صاف کردیے جس کے بعد اس کا لازمی نتیجہ خود بکود سامنے آگیا۔ ’ وما قدھوا واثارھم ‘ میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو دوسرے مقام میں ’ ینبا الانسان یومئذ بما قدم وآخر ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس دنیا میں انسان بہت سے کام، اپنے تصور کے مطابق، آخرت کے لئے کرتا ہے اور بہت سے کام اپنی اس دنیا کی زندگی یا اپنے بعد والوں کے لئے کرتا ہے۔ فرمایا کہ ہم اس کے ان دونوں ہی طرح کے کاموں کو نوٹ کر رہے ہیں۔ ’ وکان شئی احصینہ فی امام مبین۔ ‘ امام ‘ کے اصلی معنی رہنما، ہادی، لیڈر اور مرجع کے ہیں۔ ہیں سے یہ لفظ اس کتاب کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو سب کے لئے رہنما اور مرکز و مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ چناچہ ہود آیات 17 اور احقاف آیت 12 میں یہ لفظ تورات کے لئے آیا ہے۔ یہاں یہ اس مرکزی کتاب کے لئے استعمال ہوا ہے جس میں ہر شخص کے اعمال درج ہوں گے اور جس کے مطابق ہر شخص جزا یا سز اپائے گا۔ یہ اوپر والے ٹکڑے کی مزید وضاحت ہے کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ لوگوں کے اعمال و اقوال کی تحریر میں ہم نے کسی غفلت و بےپروائی سے کام لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بلکہ ہر چیز ایک نہایت واضح دفتر میں ہم نے درج کر رکھی ہے جو سب کے سامنے اس کا سارا کچھ چٹھا پیش کردے گا۔
Top