Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 142
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ
اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم سمجھتے ہو ؟ اَنْ : کہ تَدْخُلُوا : تم داخل ہوگے الْجَنَّةَ : جنت وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَعْلَمِ اللّٰهُ : اللہ نے معلوم کیا الَّذِيْنَ : جو لوگ جٰهَدُوْا : جہاد کرنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَيَعْلَمَ : معلوم کیا الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
کیا تم سمجھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تو وہ موقعہ پیش ہی نہیں آیا کہ اللہ تمہیں آزمائش میں ڈال کر نمایاں کردیتا کہ کون لوگ پوری پوری کوشش کرنے والے ہیں اور کتنے ہیں جو مشکلوں میں ثابت قدم رہنے والے ہیں
آزمائش کے وقت ثابت قدم رہنا ہی دعویٰ ایمان کی تصدیق ہے : 259: کیا تمہارا خیال ہے کہ خالی دعویٰ ایمان کے ساتھ ہی تم جنت میں داخل کردیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تک تو وہ وقت نہیں آیا وہ تمہاری آزمائش بھی کرلی جاتی یہ پہلا ہی موقع ہے کہ تمہاری ثابت قدمی کا امتحان ہو ا ہے۔ جس سے یہ بات روشن ہوچکی ہے کہ کون لوگ ہیں جو راہ حق میں پوری پوری کوشش کرنے والے ہیں اور اس طرح کی مشکلوں اور شدتوں کے وقت ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ اللہ نے نہیں جانا یعنی اللہ نے ظاہر نہیں کیا۔ علم الٰہی میں جو کچھ اس کے ظاہر ہونے کا مطلب اور۔ علم الٰہی میں جو کچھ ہونا ہے سب موجود ہے لیکن علم الٰہی میں جو کچھ ہونا ہے اس کا اظہار تو اسی وقت ہی ہوگا جب وہ ہوجائے گا اور اظہار کا مطلب ہے دوسروں کو معلوم کرانا تاکہ سب کے علم میں اصل حقیقت آجائے جو پہلے علم الٰہی میں مستور تھی۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیْجَۃً وَ اللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ (التوبہ : 16:9) ” حالانکہ ابھی تو اللہ نے ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ تو اس سے باخبر ہے۔ “ یہ خطاب ہے ان نئے لوگوں سے جو قریب کے زمانہ میں ایمان لائے تھے ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم اس آزمائش سے گزر کر یہ ثابت نہ کر دو گے کہ واقعی تم خدا اور اس کے دین کو اپنی جان و مال اور اپنے بھائی بندوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہو ، تم سچے مومن قرار نہیں دیے جاسکتے۔ اب تک تو تمہاری ظاہر پوزیشن یہ ہے کہ اسلام چونکہ مومنین صادقین اور سابقین الاولین کی جانفشانی سے غالب آگیا اور ملک پر چھا گیا اس لیے تم مسلمان ہوگئے۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ (العنکبوت : 3 ۔ 2:29) ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس وہ اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ” ہم ایمان لائے۔ “ اور ان کو آزمایا نہ جائیگا ؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو یہ ضرور ظاہر کرنا ہے کہ سچے کون ہے اور جھوٹے کون ؟ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ (العنکبوت : 11:29) ” تاکہ ظاہر کر دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور ظاہر کر دے منافقوں کو۔ “ وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ جس کا ترجمہ ہم نے کیا ہے ” اور تاکہ اللہ تم کو ظاہر کر دے۔ “ یعنی نمایاں کر دے۔ اور عام طور پر جو ترجمہ کیا جاتا ہے وہ ” تاکہ اللہ جان لے “ ایسا کیوں کہا گیا ؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو سب کو جانتا ہی ہے اور یہ کہنا کہ پہلے جانتا نہیں تھا اب جان لے کسی حال میں صحیح و درست نہیں۔ لیکن جب تک ایک شخص کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہوتی ہے عملاً اس کا ظہور نہیں ہوتا اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزاء کا مستحق ہو سکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلاً ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے آدمی میں خائن ہونے کی صلاحیت موجود ہے ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملاً ظہور نہ ہوجائے یہ بات اللہ تعالیٰ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم کی بناء پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے یہ وہ علم سابق جو اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے پہلے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آئندہ طرز عمل کے بارے میں حاصل انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم کی بناء پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے یہ وہ علم سابق جو اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے پہلے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آئندہ طرز عمل کے بارے میں حاصل ہے انصاف کی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کرے گا یا کرنے والا ہے بلکہ اس علم کے ظاہر کردینے پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی۔ اس طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بناء پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلیٰ درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا بلکہ اس علم کے ظاہر کردینے پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق ال ایمان ہونا ثابت کردیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھا دی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے ترجمہ ” ظاہر کر دے “ کیا ہے۔ یا ” نمایاں کردیا “ مزید وضاحت اور تسلی کے لیے عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت نمبر 214 کو دیکھیں۔
Top