Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 2
وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍۙ
وَكِتٰبٍ : اور کتاب کی مَّسْطُوْرٍ : لکھی ہوئی
اور کتاب لکھی ہوئی ،
کتاب سطور، سے مراد تورات ہے) وکتب مسطور (2) کتب مسطور سے مراد یہاں تورات ہے۔ اس کا ایک واضح قرینہ تو یہ ہے کہ اس کا عطف طور پر ہے اور یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ملعد ہی پر عطاء فرمائی۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس کی صفت (فی رق منشور) آتی ہے۔ (رق) باریک کھال کو کہتے ہیں جو زمانہ قدیم میں لکھنے کے مصرف میں آتی تھی اور تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات شروع شروع میں صاف کی ہوئی باریک کھالوں ہی پر لکھی جاتی جو طومار کی شکل میں لپیٹ کر رکھی جاتیں اور تلاوت کے وقت ان کو پھیلا لیا جاتا۔ ان قرآئن کی موجودگی میں تورات کے سوا کسی اور کتاب کو مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے دفتر عمال کو مراد لیا ہے، لیکن یہ اس کا محل نہیں ہے۔ اس کی شہادت اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں موثر ہو سکتی ہے۔ مقسم علیہ کے ساتھ بھی اس کا تعلق بالکل واضح ہے۔ جس طرح طور اللہ تعالیٰ کے قانون مجازات کا ایک تاریخی نشان ہے۔ اسی طرح تورات بھی ایک عظیم تحریری ریکارڈ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا قانون مجازات بھی نوشتہ ہے اور اس قانون کے تحت اس نے دنیا میں قوموں کے ساتھ جو معاملات کیے ہیں ان کی تاریخ بھی محفوظ ہے۔ اس تاریخ کو پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ مکافات عمل کو قانون حضرت آدم ؑ کے وقت سے برابر جاری ہے اور اس کا یہ تسلسل اس امر کی دلیل ہے کہ یہ برابر جاری رہے گا، یہاں تک کہ ایک ایسا دن بھی آئے گا جس میں اللہ تعالیٰ کے عدل کامل کا ظہور ہوگا۔ اس دن جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہوگی وہ اس برائی کی سزا بھگتے گا اور جس نے رائی کے برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کا صلہ پائے گا۔ لفظ کتاب کی تنکیر اس کی شان کے اظہار کے لیے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن سے پہلے یہی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے خلق کی ہدایت اور آخرت کے عذاب سے ڈرانے کے لیے اتاری اور جس کے بنیادی احکام تحریری شکل میں حضرت موسیٰ ؑ کو عنایت فرمائے۔ اس سے پہلے حضرات انبیاء (علیہم السلام) نے جو تعلیم دی وہ تمام تر زبانی دی۔ ان کی تعلیمات کو تحریر کی شکل میں لانے کا آغاز اسی کتاب سے ہوا اس وجہ سے اس کا ذکر خاص اہمیت کے ساتھ ہوا۔ اس تعلیم بالقلم سے خلق پر اتمام حجت کے جو پہلو ظہور میں آئے ان پر انشاء اللہ سورة ٔ رحمن اور سورة علق کی تفسیر میں ہم روشنی ڈالیں گے۔
Top