Tadabbur-e-Quran - Al-Hashr : 22
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ کا وَالشَّهَادَةِ ۚ : اور آشکارا هُوَ الرَّحْمٰنُ : وہ بڑا مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب و حاضر کا جاننے والا، وہ رحمان و رحیم ہے
(ھواللہ الذی لا الہ الا ھو علم الغیب والشھادۃ ھو الرحمن الرحیم)۔ (22)۔ (صفات ِ الٰہی کا حوالہ)۔ اوپر کی آیت میں جب اللہ تعالیٰ کی خشیت کا ذکر آیا تو اس آیت میں اور آگے کی آیات میں اس کے وہ اسمائے حسنیٰ بیان کردیئے گئے جن کی حیثیت بنیادی اسماء کی ہے تاکہ مومنین، کفار اور منافقین سب کو معلوم ہوجائے کہ جس رب سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے وہ کن اوصاف کا مالک ہے۔ انہیں کس طرح اس سے ڈرنا چاہیے، کس قدر اس سے محبت کرنی چاہیے، کس طرح اس سے امید کرنی چاہیے، کس طرح اس پر بھروسہ کرنا چاہیے اور کس طرح اس کے لیے جینا اور اسی کی راہ میں مرنا چاہیے۔ فلسفہ دین کی یہ حقیقت ہم اس کتاب میں جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ تمام دین و شریعت کی بنیاد در حقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے مقتضات ہی پر ہے۔ قرآن میں (الحمد) سے لے کر (والناس) تک جو کچھ بیان ہوا ہے وہ تمام تر صفات ِ الٰہی کے مظاہرو انوار اور ان کے تقاضوں ہی کا بیان ہے۔ انہی سے دین کا فلسفہ وجود میں آیا ہے اور انہی سے دین کے مظاہر و اشکال بھی ظہورپذیر ہوئے ہیں اس وجہ سے ان کا سمجھنا ضروری ہے لیکن ان کو سمجھنے کے لیے پورے قرآن کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں ہم بالا جمال صرف ان پہلوئوں کی طرف اشارہ کریں گے جن سے ان صفات کے ابتدائی تقاضوں کے سمجھنے میں مدد ملے۔ (ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو) سب سے پہلے اپنی الوہیت کی یاددہانی فرمائی اور ساتھ ہی اس بات کی کہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اس وجہ سے امید وہم دونوں حالتوں میں بندوں کو اسی سے رجوع کرنا چاہیے اس کے سوا کوئی اور حق دار نہیں ہے کہ اس کو معبود مانا جائے یا اس کی پرستش کی جائے یا اس کو مرجع سمجھ کر اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں۔ (علم الغیب والشھادۃ) وہ غائب و حاضر دونوں کو جاننے والا ہے۔ لفظ غیب یہاں بندوں کے لحاظ سے استعمال ہوا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر چیز شہادت (حاضر) کے حکم میں داخل ہے۔ اس صفت کے اندر امید وہم دونوں کے پہلو ہیں۔ ہم کا پہلو یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے۔ خواہ سرایا علانیہ ً ، وہ اللہ کے علم میں ہے اور جب سب کچھ اس کے علم میں ہے تو وہ لازماً ایک ایک چیز سے متعلق بازپرس کرے گا۔ پھر نہ تو کوئی اپنے کسی قول و فعل کو چھپا سکے گا اور نہ اس کا کوئی سفارشی خدا کے سامنے اس کے باب میں کوئی غلط بیانی کرسکے گا۔ امید کا پہلو اس میں یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کے ہر غائب و حاضر سے واقف ہے تو اس کو اس پر پورا بھروسہ رکھنا چاہیے اور اپنی ہر درخواست اسی کے آگے پیش کرنی چاہیے۔ (ھو الرحمن الرحیم، رحمن) اور (رحیم) کے فرق پر آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے تحت ہم بحث کرچکے ہیں۔ صفت (رحمان) کے اندر رحمت کے جوش کا اور (رحیم) کے اندر رحمت کی پائیداری کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ان صفات کے اندر بھی غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ امید وہم دونوں کے پہلو موجود ہیں۔ امید کا پہلو تو واضح ہے کہ جب خدا رحمان بھی ہے اور رحیم بھی تو اس سے کسی ظلم یا ناانصافی کا کوئی اندیشہ نہیں ہوسکتا کہ اسکے ہاں کسی سفارشی کی ضرورت پیش آئے۔ اس نے جو کچھ کچھ کیا ہے اور جو کچھ کرے گا رحمت ہی کے لیے کیا ہے اور رحمت ہی کے لیے کرے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ بیم کا پہلو اس میں یہ ہے کہ جب خدا رحمان اور رحیم ہے تو وہ کسی کے ظلم کو گوارا نہیں کرے گا بلکہ ہر شخص کے ظلم کا لازماً بدلہ لے گا، چناچہ یہی وجہ ہے کہ اس نے قرآن میں جگہ جگہ قیامت کو اپنی صفت رحمت ہی پر مبنی کیا ہے کہ یہ اس کی رحمت کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ قیامت لائے تاکہ ہر ایک کے ساتھ پورا پورا انصاف کرے۔ (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَط لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ) (الانعام : 6 : 13)
Top