Tadabbur-e-Quran - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
(کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا جو سلامت چھوڑ دیئے تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔
2۔ آگے آیات 5۔ 10 کا مضمون آگے اصل سلسلہ مضمون سے ذرا ہٹ کر بطورجملہ معترضہ، یہود اور منافقین کے بعض اعتراضات و شبہات کے جواب دیئے ہیں جو اسی واقعہ بنی نضیر کے تعلق سے پیدا ہوئے۔ ایک اعتراض تو یہود نے اٹھایا کہ مسلمانوں نے انکے باغوں کے بہت سے بار آور درخت کاٹ دیئے۔ یہ درخت اگرچہ جنگی مصلحت سے کاٹے گئے تھے لیکن یہود اور ان کے ہمدردوں نے اس کو یہ رنگ دینے کی کوشش کی کہ یہ افساد فی الارض ہے درآنحالیکہ مسلمان اصلاح فی الارض کے مدعی ہیں۔ اس اعتراض سے ان کا مقصود یہ تھا کہ اسلام کی دعوت کو لوگوں کی نگاہوں میں مشکوک بنائیں کہ یہ دین کی دعوت نہیں بلکہ حصول اقتدار کی کشمکش ہے، جس میں دین کا نام محض لوگوں کو العیاذ باللہ دھوکہ دینے کے لیے لیا جا رہا ہے۔ اس نوعیت کے ایک اعتراض کا جواب سورة حدید بھی گزر چکا ہے جو اہل کتاب ہی کا اٹھایا ہوا تھا۔ دوسرا سوال منافقین نے بنی نضیر کے متروکہ اموال و املاک سے متعلق اٹھایا کہ ان کو بھی اموال غنیمت کی طرح، پانچواں حصہ الگ کر کے، باقی فوجیوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے لیکن قرآن نے اس کو مال غنیمت کے بجائے مال نے کی حیثیت دی اور اس کے متعلق یہ حکم دیا کہ یہ سب کا سب سرکاری خزانے میں جمع ہوگا تاکہ اس سے غرباء و مساکین اور خا ص طور پر ان مہاجرین کی مدد کی جائے جو صرف دین کی خاطر اپنے گھروں سے نکالے اور اپنی جائیدادوں سے محروم کیے گئے ہیں۔ اسی ذیل میں انصار اور مہاجرین اولین کے ایثار اور ان کی سیر چشمی کی تحسین فرمائی کہ وہ اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے نہایت فراخ دل ہیں اور اپنی ضرورت پر ان کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی رویہ اہل ایمان کے شایان شان ہے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 3۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (ایک اعتراض کا برمحل جواب)۔ (لینۃ) کھجور کے مثمر درخت کو کہتے ہیں۔ یہ یہود اور ان کے حلیفوں کے ایک اعتراض کا بر محل جواب ہے۔ مسلمانوں نے جب بنی نضیر پر فوج کشی کی تو جنگی ضرورت و مصلحت کے تحت ان کے باغوں کے کچھ درخت انہیں کاٹنے پڑے۔ اس چیز کو انہوں نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ذریعہ بنا لیا کہ مسلمان دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ ملک میں اصلاح کے لیے اٹھے ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے باغوں کے پھل لانے والے عمدہ درخت کاٹ کے ڈال دیے۔ بھلا مثمر درختوں کا کاٹنا بھی کوئی اصلاح کا کام ہوا، یہ تو صریح افساد فی الارض ہے !۔ (اوتر کتموھا قائمۃ) کے بظاہر ذکر کی کوئی ضرورت معلوم نہیں ہوتی اس لیے کہ ان کو اعتراض درختوں کے کاٹنے پر تھا نہ کہ ان کے چھوڑنے پر لیکن اس کے ذکر سے ان کے اعتراض کے ایک خاص پہلو پر روشنی پڑتی ہے جس پر اس کے بغیر روشنی نہیں پڑ سکتی تھی۔ وہ یہ کہ جب انہوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہوگا تو اس کو موثر بنانے کے لیے یہ بھی کہا ہوگا کہ اگر مسلمانوں کو صرف وقتی ضرورت کے لیے لکڑی مطلوب تھی تو وہ فلاں اور فلاں درخت کاٹ سکتے تھے جن کے کاٹنے سے کچھ زیادہ نقصان نہ ہوتا لیکن وہ درخت تو انہوں نے کھڑے چھوڑ دیئے اور یہ اچھے بھلے، مثمر درخت انہوں نے کاٹ کے ڈھیرے کردیئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدام کسی واقعی ناگزیر ضرورت کے لیے نہیں بلکہ محض انتقام کے جذبہ کے تحت، معاشی تباہی پھیلانے کے لیے کیا گیا ہے جو اصلاح نہیں بلکہ صریح افساد ہے۔ (فباذن اللہ ولیخری الفسقین)۔ یہ اس اعتراض کا جواب دیا ہے لیکن معترضین کو مخاطب کرنے کے بجائے صرف مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے کہ تم ان ناصحوں کی مطلق پروانہ کرو کہ تمہیں کون درخت کاٹنے اور کون چھوڑنے تھے۔ تم نے جو کچھ کیا رسول کی موجودگی میں، اس کی ہدایت کے تحت، کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کام اللہ کے اذن کے تحت ہوا ہے اور جب اللہ کے اذن کے تحت ہوا تو اللہ سے بڑھ کر نہ کوئی حکمت و مصلحت کو جاننے والا ہوسکتا اور نہ اصلاح و افساد کے درمیان امتیاز کرنے والا۔ (الیخری الفسقین) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو اس لیے یہ اذن دیا کہ ان عہد شکنوں اور غداروں کو رسوا کرے اور یہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ انہوں نے جو درخت بڑے ارمانوں سے لگائے وہ ان کے سامنے کاٹے جا رہے ہیں لیکن وہ اتنے بےبس ہیں کہ چوں بھی نہیں کرسکتے۔ لفظ ’ فاسق ‘ یہاں غدار اور عہد شکن کے مفہوم میں ہے اور اس مفہوم میں یہ لفظ قرآن میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے۔ یہاں معترضوں اور نکتہ پنیوں کو خطاب نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعتراض ایک بالکل نامعقول اعتراض تھا جو انہوں نے محض اپنے دل کا بخار نکالنے کے لیے اٹھایا۔ اس وجہ سے وہ لائق خطاب نہ تھے البتہ مسلمانوں کو خطاب کر کے ان کے اس فعل کی تصویب فرما دی تاکہ غداروں کو اس سے رنج بھی پہنچے اور ساتھ ہی منافقوں کو بھی تنبیہ ہوجائے کہ وہ اس کو وسوہ اندازی کا ذریعہ نہ بنائیں۔ رہا یہ سوال کہ مسلمان بحالت جنگ دشمنوں کے باغوں اور کھیتوں کو اجاڑ سکتے ہیں یا نہیں تو یہ کوئی اہم سوال نہیں ہے۔ اگر جنگ کی ضرورت داعی ہو تو وہ ان کے گھروں کو بھی مسمار کرسکتے ہیں چہ جائیکہ انکے باغ اور کھیت، لیکن جنگ کی ضرورت داعی نہ ہو تو ان کی کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نقصان پہنچانا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔
Top