Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 35
وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیَةٍ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے كَبُرَ : گراں عَلَيْكَ : آپ پر اِعْرَاضُهُمْ : ان کا منہ پھیرنا فَاِنِ : تو اگر اسْتَطَعْتَ : تم سے ہوسکے اَنْ : کہ تَبْتَغِيَ : ڈھونڈ لو نَفَقًا : کوئی سرنگ فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَوْ : یا سُلَّمًا : کوئی سیڑھی فِي السَّمَآءِ : آسمان میں فَتَاْتِيَهُمْ : پھر لے آؤ ان کے پاس بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ لَجَمَعَهُمْ : تو انہیں جمع کردیتا عَلَي الْهُدٰي : ہدایت پر فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو آپ نہ ہوں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اگر ان کا اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے تو اگر تم زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی زینہ ڈھونڈ سکو کہ ان کے پاس کوئی نشانی لا دو تو کر دیکھو۔ اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا تو تم جذبات سے مغلوب ہوجانے والوں میں سے نہ بنو۔
وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ ، اس جملہ میں جواب شرط محذوف ہے اور فصیح عربی میں جواب شرط کا حذف ایک معروف بات ہے۔ قرآن میں اس کی نظیریں بہت ہیں۔ ترجمہ میں ہم نے اس کو کھول دیا ہے۔ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ۔ جہل کے لفظ پر ہم دوسرے مقام میں تفصیل کے ساتھ بھچ کر کے بتا چکے ہیں کہ عربی میں یہ لفظ علم اور حلم دونوں کے ضد کی حیثیت سے آتا ہے بلکہ اس کا غالب استعمال ‘ حلم ’ کے ضد کی حیثیت ہی سے ہے اسی وجہ سے اس کے معنی ہوتے ہیں جذبات سے مغلوب ہوجانا۔ حضرات انبیاء (علیہم السلام) اپنی طہارت فطرت کے سبب سے جذبات نفس اور خواہشات نفس سے تو کبھی مغلوب نہیں ہوتے لیکن جذبات خیر میں سے کسی جذبہ کا غلبہ ان پر بھی کبھی کبھی اتنا ہوجاتا ہے جو حد مطلوب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بجائے خود نہایت اعلی بات ہے لیکن حضرات انبیا چونکہ معیار اور کسوٹی ہوتے ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پہلو میں بھی ان کو حد مطلوب سے آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ نبی کے اندر اس بات کی شدید آرزو ہوتی ہے کہ اس کی قوم ایمان لائے تاکہ وہ عذاب الٰہی سے بچ جائے۔ یہ جذبہ نبی کی رافت و رحمت کی دلیل اور اس کی غیرت حق کی شہادت ہے لیکن یہ جذبہ بھی مطلوب اسی حد تک ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ کی اس سنت سے ہم آہنگ ہے جو لوگوں کے کفر و ایمان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے پسند فرمائی ہے اور جس کی طرف آیت 34 میں اشارہ گزرا۔ اگر اس حد سے اس کے آگے بڑھنے کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اس سے روک دیتا ہے۔
Top