Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 35
وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیَةٍ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے كَبُرَ : گراں عَلَيْكَ : آپ پر اِعْرَاضُهُمْ : ان کا منہ پھیرنا فَاِنِ : تو اگر اسْتَطَعْتَ : تم سے ہوسکے اَنْ : کہ تَبْتَغِيَ : ڈھونڈ لو نَفَقًا : کوئی سرنگ فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَوْ : یا سُلَّمًا : کوئی سیڑھی فِي السَّمَآءِ : آسمان میں فَتَاْتِيَهُمْ : پھر لے آؤ ان کے پاس بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ لَجَمَعَهُمْ : تو انہیں جمع کردیتا عَلَي الْهُدٰي : ہدایت پر فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو آپ نہ ہوں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور آپ پر اگر ان کا اعراض گراں گزرتا ہے،54 ۔ تو اگر آپ کے بس میں ہو کہ زمین (میں جانے) کے لئے کوئی سرنگ یا آسمان (پر جانے) کے لئے کوئی زینہ ڈھونڈلیں تو ضرور کوئی نشان ان کے لئے آئیں،55 ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان (سب) کو ہدایت پر جمع کردیتا،56 ۔ تو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے،57 ۔
54 ۔ (اور اس لئے آپ چاہتے ہیں کہ ان کے فرمائشی معجزے بھی کسی نہ کسی طرح پورے ہو کر رہیں) اعراض وہی جس کا ذکر اوپر ہوچکا۔ 55 ۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم تو ان کی فرمائشیں بہ وجہ عدم ضرورت ولزوم ضرر پوری کرنے کے نہیں۔ ہاں آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمان ہو ہی جائیں تو آپ ہی یہ انتظامات کیجئے (تھانوی (رح) (آیت) ” فتاتیھم بایۃ “۔ یعنی آپ ﷺ کے باس میں ہو تو آپ یہ کردکھائیے، مقصود اس امر کا اظہار ہے کہ آپ ﷺ میں ان کافروں کے حال پر شفقت اور ان کے اسلام لے آنے کی حرص اس درجہ بڑھی ہوئی ہے کہ آپ ﷺ کے اختیار میں ہو تو آپ ﷺ فرمایشی معجزہ کردکھانے کو تیار ہیں کہ کسی طرح یہ مسلمان ہو تو جائیں۔ فافعل یعنی انک لا تستطیع ذلک والمراد بیان حرصہ علی اسلام قومہ وقبائلہ علیہ وانہ لو استطاع ان یاتیھم بایۃ من تحت الارض اومن فوق السماء لاتی بھارجاء ایمانھم (کشاف) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت نص ہے اس باب میں کہ ارادۂ عبد حصول مراد کے لئے قطعی اور لازمی نہیں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا ارادہ بھی، پھر کسی بزرگ سے متعلق اہل غلو کا یہ عقیدہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ اس کی دعا کا قبول ہونا لازمی ہے۔ 56 ۔ یعنی اگر مصالح تکوینی کے اعتبار سے ہماری مشیت یہی ہوتی کہ چھوٹے بڑے سب کو بلااستثناء راہ ہدایت ہی دکھا دی جائے تو پھر ایسا ہو ہی جاتا، اس میں مانع کون اور کیا ہوسکتا تھا، اور دنیا میں اختلاف مسلک و عقیدہ کی گنجائش ہی باقی نہ رہتی۔ طلب معجزات وغیرہ کا کوئی سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔ ای لاراھم ایۃ تضطرھم الی الایمان ولکنہ اراد عزوجل ان یشیب منھم من امن ومن احسن (قرطبی) 57 ۔ (کہ ایسی ان ہونی بات کی توقع کرنے لگیں) مطلب یہ ہوا کہ انسان کو جو اختیار دیا گیا اور ارادہ کی قوت سونپی گئی۔ اس کے معنی ہی یہ ہیں۔ کہ روش اختلاف باقی رہے، جبری ہدایت تو اس بنیادی ومرکزی نقطہ تکوینی ہی کے منافی ہے اور ایسی روشن وبنیادی حقیقت سے بیخبر عین جہالت ہے۔ والمقصود من تغلیظ الخطاب التبعید والزجر لہ عن مثل ھذہ الحالۃ (کبیر)
Top