Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
کیا وہ اونٹوں پر نگاہ نہیں کرتے، وہ کیسے بنائے گئے !
قیامت کی بعض آفاقی نشانیوں کی یاددہانی: یہ ان لوگوں کو جو مذکورہ جزا و سزا سے بالکل نچنت زندگی گزار رہے تھے۔ آفاق کی بعض نہایت نمایاں نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آخر وہ ان چیزوں پر کیوں غور نہیں کرتے جو خالق کی صفات ربوبیت و قدرت اور اس کی حکمت و عظمت کی اس طرح شہادت دے رہی ہیں کہ جس کے اندر ذرا بھی حق پسندی ہو وہ قیامت اور جزاء و سزا کا انکار نہیں کر سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ ان نشانیوں کے ہوتے وہ اس بات پر کیوں اڑے ہوئے ہیں کہ کوئی نشانئ عذاب ظاہر ہو یا قیامت آ جائے تب ہی وہ پیغمبر کی بات مانیں گے۔ اونٹ کی طرف اشارہ: ’اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ إِلَی الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ‘۔ سب سے پہلے اونٹ کی طرف توجہ دلائی کہ آخر وہ اپنے سفر و حضر کے سب سے زیادہ خدمت گزار، وفا شعار اور جاں نثار ساتھی اونٹ ہی پر کیوں نہیں غور کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کن صفات و خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کس طرح اس کو ان کا مطیع بنایا ہے کہ ایک عظیم الجثہ اور طویل القامت جانور ہونے کے باوجود اس کی ناک میں نکیل ڈال کر وہ جدھر چاہیں لیے پھرتے ہیں اور وہ بے چون و چرا ان کی اطاعت کرتا ہے۔ وہ حضر میں ان کا رات دن کا ساتھی ہے؛ سفر میں ان کا باربردار رفیق؛ صحرا میں ان کا سفینہ ہے۔ ہفتہ ہفتہ بھر وہ بھوک سے اور پیاس کا مقابلہ کرتا ہے۔ خاردار جھاڑیوں سے اپنا پیٹ بھر لیتا ہے اور کسی بڑی سے بڑی مشقت سے بھی انکار نہیں کرتا۔ اس کا گوشت، پوست، دودھ، ہر چیز مالک کے کام آتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا بول و براز بھی رائگاں جانے والی چیز نہیں۔۔۔ اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اتنے گوناگوں فوائد و مصالح کے ساتھ یہ جانور آپ سے آپ پیدا ہو گیا اور انسان نے اس کو اتفاق سے پکڑ کر اپنے لیے سازگار بنا لیا ہے یا رب کریم نے اپنی قدرت و حکمت سے اس کو پیدا کیا اور اس کو انسان کی خدمت میں لگایا ہے۔ ظاہر ہے کہ عقل اس دوسری بات ہی کی گواہی دیتی ہے۔ اگر یہ دوسری ہی بات قابل قبول ہے تو کیا انسان پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ اپنے رب کا شکرگزار بندہ بن کر زندگی گزارے جس نے اس کے لیے بغیر کسی استحقاق کے زندگی کی یہ آسائشیں فراہم کی ہیں ورنہ ایک اپنے رب کے آگے جواب دہی اور اپنے کفران نعمت کی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اونٹ کا ذکر بطور مثال محض ان خصوصیات کی بنا پر ہوا ہے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ مقصود ان تمام جانوروں کی طرف توجہ دلانا ہے جو قدرت نے انسان کے لیے مسخر کیے ہیں اور جن پر اس کی معاش و معیشت کا انحصار ہے۔ دوسرے مقامات میں قرآن نے ان کا حوالہ بھی دیا ہے اور مدعا اس حوالہ سے اس حقیقت کو انسان پر واضح کرنا ہے کہ ہر نعمت منعم کا شکر واجب کرتی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ ایک ایسا روز آئے جس میں شکرگزار اپنی شکرگزاری کا انعام پائیں اور ناشکرے اپنے کفران نعمت کی سزا بھگتیں۔ ان شاء اللہ سورۂ عادیات کی تفسیر میں اس پر مفصل بحث آئے گی۔
Top