Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 44
بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ١ؕ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ وَالزُّبُرِ : اور کتابیں وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الذِّكْرَ : یاد داشت (کتاب) لِتُبَيِّنَ : تاکہ واضح کردو لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مَا نُزِّلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَعَلَّهُمْ : اور تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : وہ غور وفکر کریں
پچھلے رسُولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذِکر تم پر نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاوٴ جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے40، اور تاکہ لوگ (خود بھی)غور و فکر کریں
سورة النَّحْل 40 تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی، اور ”ذکر الہٰی“ کے منشاء کے مطابق اس کے نظام کو چلا کر بھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کردی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازما ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے۔ ”ذکر“ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جاسکتا تھا۔ براہ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جاسکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ”ذکر“ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں ان کے مقابلہ میں وہ اس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اس ”ذکر“ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام ”ذکر“ کے منشاء کی شرح ہو۔ یہ آیت جس طرح ان منکرین نبوت کی حجت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ”ذکر“ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اسی طرح آج یہ ان منکرین حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی ﷺ کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ”ذکر“ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی ﷺ نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کردیا تھا، یا اس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی ﷺ کی تشریح، یا اس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی ﷺ کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابل اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی ﷺ کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے، غرض ان چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں، ان کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔ اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی ﷺ نے اس منشاء ہی کو فوت کردیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اسے واسطہ تبلیغ بنایا گیا تھا۔ اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا " ذکر“ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہوجانے کا ہوسکتا تھا۔ اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدی ﷺ ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلک معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صرف ان لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو ناگزیر ٹھیرا رہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشاء کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرین حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدی ﷺ ختم ہوگئی اور ہمارا تعلق محمد ﷺ کے ساتھ صرف ان طرح کا رہ گیا جیسا ہود اور صالح اور شعیب (علیہم السلام) کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کردیتی ہے، صرف ایک بیوقوف ہی اس کے بعد ختم نبوت پر اصرار کرسکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مدعی سست کی حمایت میں گواہان چست کی بات ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہوجاتی ہے۔ قاتلہم اللہ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکار حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔
Top