Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 58
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے
ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین . ‘ اللہ خود ہی (سب کو) رزق دینے والا ‘ مضبوط قوّت والا ہے۔ ھُوَ الرَّزَّاقُ : یعنی ساری مخلوق کو اللہ ہی رزق پہنچانے والا ہے اور خود رزق سے بےنیاز ہے۔ ذُوالْقُوَّۃِ : رزق پہنچانے پر بلکہ ہر مراد پر بڑی قدرت رکھنے و الا ہے۔ اَلْمَتِیْن : بڑی قدرت والا۔ بعض علماء نے آیت مذکورہ میں لفظ قل کو محذوف قرار دیا ہے اور مطلب اس طرح بیان کیا ہے : ” اے محمد ! آپ کہہ دیجئے کہ میں لوگوں سے رزق کا طلبگار نہیں ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے کھانا کھلائیں۔ “ آیت : لَا اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا۔ اسی مضمون کی تائید کر رہی ہے۔ ایک شبہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنَِ : رسول اللہ ﷺ کا کلام نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ” قُلْ “ صیغہ خطاب محذوف نہیں ہوسکتا۔ ازالہ عام محاورہ ہے کہ بادشاہ اپنے قاصد سے کہتا ہے تم جا کر کہہ دو کہ میں تم کو فلاں کام کا حکم دیتا ہوں۔ سفیر جا کر یہی کہہ دیتا ہے کہ میں تم کو فلاں کام کا حکم دیتا ہوں۔ یہ حقیقت میں بادشاہ کے قول کی نقل ہوتی ہے۔ سفیر اپنی طرف حکم دینے کی نسبت نہیں کرتا۔
Top